Maktaba Wahhabi

44 - 406
اگر یہ کہا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی کیا تو جیہ ہوگی؟[آپ کافرمان ہے:] ’’بیشک تمہارے پیچھے ایسے ایام ہیں جن میں صبر کرنا ایسے ہے جیسے انگارے کو پکڑ لینا۔ان ایام میں نیک اعمال کرنے والے کا اجر ایسے ہی ہوگا جیسے اس جیسے نیک اعمال کرنے والے پچاس افراد کا عمل۔‘‘ تو صحابہ نے عرض کیا: کیا ان میں سے پچاس نیک افراد کا عمل ؟تو آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے پچاس افراد۔‘‘ [1] جواب:.... یہ فضیلت ایک متعین معاملہ میں ہے؛ اس سے مطلقاً فضیلت ثابت نہیں ہوتی اور وہ معاملہ یہ ہے کہ ان دنوں میں صبر کرنے والے کا اجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے پچاس صبر کرنے والوں کے اجر کے برابر ہے۔پس پتا چلا یہ ایک خاص فضیلت ہے جو کہ ایک متعین مسئلہ میں ہے۔ یہ فضیلت مطلق طور پر نہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث کہ ’’ان میں سے ایک عامل کااجر تم میں سے پچاس کے اجر کے برابر ہوگا۔‘‘اس میں کسی غیر صحابی کی صحابی پر فضیلت کی کوئی دلیل نہیں ۔اس لیے کہ صرف اجر زیادہ ہونے کے ثبوت سے مطلق طورپر افضلیت کا ثبوت لازم نہیں آتا۔ نیز یہ کہ اجر میں تفاضل اس جیسے عمل کی نسبت سے ہوتا ہے۔ جب کہ وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کرپائے ہیں ؛ کوئی فضیلت اس سعادت کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔‘‘ [فتح الباری۷؍۷] ۴۔ ذکر خیر کرنا: ان کی مدح و ثنا بیان کرنا؛ان کے محاسن اور خوبیوں کا تذکرہ کرنا۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اس قدسی جماعت کاذکر خیر کرنا ان کی محبت کا ایک حصہ ہے۔جس کا دل ان پاکبازوں کی محبت سے بھرا ہوگا تو بلاریب اس کی زبان سے بھی ان کی محبت کے تذکرے ہوں گے۔ یہ عقیدہ تمام اہل سنت و الجماعت کے ہاں متفق علیہ رہا ہے؛ اور اسے انہوں نے اپنی کتابو ں میں تحریر کیا ہے۔ امام مزنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ان کی فضیلت بیان کی جائے گی اور ان کے افعال کے محاسن لوگوں میں نشر کیے جائیں گے۔‘‘ [2] امام ابن ابی زمنین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
Flag Counter