Maktaba Wahhabi

20 - 406
شبہ کیا ہوتا ہے؟ ابن منظور کہتے ہیں :’’شبہ‘‘ التباس سے ہے۔ مشتبہ امور ان مخلوط امور کو کہا جاتاہے جو آپس میں ملے ہوئے ہوں ۔ ‘‘[1] نہج البلاغہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے: ’’بیشک شبہ کو شبہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ حق سے مشابہت رکھتا ہے۔ جب کہ اولیاء اللہ کو اس میں یقین کا نور حاصل ہوتا ہے اور ان کی دلیل ہدایت [و نور ]پر مبنی ہوتی ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کے دشمن اس میں اپنی گمراہی کی دعوت پھیلاتے ہیں ، اوران کی دلیل اندھا پن اور گمراہی ہوتی ہے۔‘‘[2] لوگوں میں شبہات اور بدگمانیاں پھیلانے والوں کا سب سے بڑا ذریعہ جس پر وہ یہ فتنے پھیلانے کی راہ میں عمل پیرا ہیں متشابہ مسائل ہیں ۔ اگر وہ اس میں اپنی خواہشات کے مطابق کفایت نہ پائیں تو پھر کتاب اللہ کی آیات میں تحریف اور صحیح احادیث مبارکہ میں تبدیلی اور تاویل کا ارتکاب کرتے ہیں اور انہیں ایسے دور کے احتمالات پر محمول کرتے ہیں جن کا شارع علیہ السلام کے مقصود سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا اور ان روایات و آیات کو ان کے ظاہر سے اپنی خواہشات نفس اور آراء و رغبت کے مطابق موڑ دیتے ہیں اور اگر ان تمام باتوں سے عاجز آجائیں تو پھر اپنے باطل مذہب و مقصد کے لیے احادیث گھڑنا شروع کردیتے ہیں تاکہ وہ اپنے مذہب کی نصرت کرسکیں ۔ یہ آخری مرحلہ ان لوگوں کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس کی طرف ان لوگوں نے رجوع کیا ہے ۔خصوصاً ان لوگوں کی اکثر من گھڑت روایات جو کہ مسلمانوں کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں [اس کی وجہ یہی ان کی مکاریاں ہیں ]۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مختلف علوم میں مسلمانوں کے مصادر میں ہزاروں روایات ایسی ہیں جنہیں اپنی طرف سے گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ رحمہم اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اپنی طرف سے احادیث گھڑ لینا یہ ایک پرانی عادت ہے۔ ان دروغ گو لوگوں کے مقاصد مختلف رہے ہیں ۔ زنادقہ جو کہ ایمان کا اظہار کرتے اور باطن میں کفرکو چھپائے رکھتے تھے، وہ دین کے بارے میں احادیث اس لیے گھڑتے تھے تاکہ مسلمانوں کے سامنے ان کے دین کوحقیر بناکر پیش کریں اوران پر معاملات کو خلط ملط کردیں ۔ جب کہ خواہشات نفس کے پجاری او رمذہبی تعصب رکھنے والے وہ احادیث گھڑا
Flag Counter