Maktaba Wahhabi

363 - 406
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متعلق شبہات حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کثرت روایت: جواب: ....یہاں پر یہ اشارہ کرنا ضروری ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہر گزافراط وتفریط سے کام لینے والے نہ تھے۔ بلکہ آپ بھی دوسرے علماء صحابہ کی طرح ایک تھے، آپ سے فتوی لیا جاتا تو فتوی دیتے، سوال پوچھا جاتا تو جواب دیتے اور ہر گز افراط وتفریظ سے کام نہ لیتے۔ نہ ہی عہد خلفائے راشدین میں ایسے کیا اور نہ ہی بعد میں ۔ صحابہ کو آپ پر بھر پور اعتماد تھا اور وہ آپ کے مقام ومرتبہ سے واقف تھے اور آپ کو آپ کے شایان شان مقام دیتے تھے۔ کتنے ہی لوگ لمبے لمبے سفر اس لیے کرتے تھے کہ وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ سکیں اور کتنے ہی مقامی لوگ کبار صحابہ کو چھوڑ کر حدیث معلوم کرنے یا مسئلہ پوچھنے کے لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوتے۔ ٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی طرف سے کوئی چیز زیادہ کرکے نہیں بتاتے تھے، بلکہ لوگوں کو آپ کے حافظے پر اعتماد ویقین تھا۔ اس لیے وہ کوشش کر تے تھے کہ اس میٹھے گھاٹ سے اپنی پیاس بجھانے کے لیے جام بھر لیں ۔ آپ کے علم وحافظے کی گواہی اور اعتراف حضرت ابن عمر، حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہم اور دوسرے کبار صحابہ کو تھا۔ حتیٰ کہ جب لوگ آپ کی کثرت روایت کے متعلق باتیں کرنے لگے تو آپ نے فرمایا: میرا کیا قصور ہے میں نے یاد رکھا اور وہ بھول گئے۔ ٭خود امامیہ کے مصادر میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے بہت ساری احادیث سنتا ہوں ، پھر بھول جاتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک اس میں رکھے، پھر فرمایا: اسے لپیٹ لو، تو میں نے اسے لپیٹ لیا۔ پھر اس کے بعد میں بہت زیادہ نہیں بھولا۔‘‘ [1] تو پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا کیا قصور ہے جب آپ کے حافظہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا گوہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حافظہ عنایت کرے۔ شیعہ عالم نجاشی نے ہشام بن محمد بن سائب کے حالات زندگی میں لکھا ہے: علم وفضل میں مشہور تھا اور ہمارے مذہب کا بطور خاص اہتمام کر تا تھا۔ اس کی ایک مشور
Flag Counter