Maktaba Wahhabi

279 - 406
اس کے جواب میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اﷲ کی قسم!اگر میں آگے بڑھوں اور آپ میری گردن کاٹ ڈالیں اس سے بہتر ہے کہ میں اس قوم کا سردار بنوں جس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ موجود ہوں ۔‘‘ [1] اگر آپ یہ بھی فرماتے کہ’’ تم میں علی رضی اللہ عنہ موجود ہیں تو پھر اپنے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جگہ آپ کو خلیفہ بناتے۔ اس لیے کہ آپ کی بات مانی جانے والی تھی۔‘‘ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بعض شرعی مسائل سے لاعلم تھے: ایک شبہ یہ ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بعض شرعی مسائل کا علم نہ تھا۔ آپ نے چور کا بائیاں ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ حکم دیا کہ لوطی کو جلا دیا جائے اور آپ کو دادی اور کلالہ کی وراثت کا علم نہیں تھا۔ پس آپ امامت کے اہل نہیں تھے، شرعی احکام کا علم ہونا فریقین کے ہاں امامت کی شروط میں سے ہے۔ اس پر اجماع ہے۔ جواب:.... تیسری بار میں چور کا بائیاں ہاتھ کاٹنا حکم شرعی کے موافق ہے۔ ٭حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کسی کو بھی زندہ حالت میں آگ سے نہیں جلایا۔ بلکہ صحیح روایت میں حضرت سوید رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ کے پاس ایک لوطی کو لایا گیا، آپ نے حکم دیا کہ اس کی گردن مار دی جائے اور پھر اس کو جلانے کاحکم دیا۔ لوگوں کی عبرت کے لیے میت کو جلانا جائز ہے، جیسا کہ سولی پر لٹکانا جائز ہے۔ اس لیے کہ میت کو ایسے امور سے تکلیف نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس میں زندگی نہیں پائی جاتی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ آپ نے بعض زند یقوں کو جلایا۔ شیخ المر تضیٰ الملقب بعلم الھدی نے اپنی کتاب ’’تنزیہ الا نبیاء والا ئمہ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ: ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسے آدمی کو جلا دیا تھا، جس نے اپنے غلام سے لونڈے بازی کی تھی۔‘‘[2] ٭تیسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس سے اہل سنت پر الزام نہیں آتا۔ اس لیے کہ فعلی طور پر تمام احکام شریعت کا علم ہونا ان کے ہاں بھی امامت کی شرط نہیں ہے، اس لیے کہ عہد میں نصوص کی تدوین
Flag Counter