Maktaba Wahhabi

331 - 406
تو آپ نے فرمایا: میرے بیٹے! لوگوں میں اصلاح کی خاطر۔ کہا: پھر حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کو بلا لیجئے تاکہ آپ میری اور ان کی گفتگو سن سکیں ۔ آپ نے آدمی بھیج کر ان دونوں کو بلالیا۔ تو سیّدناقعقاع رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ام المؤمنین سے دریافت کیا تھا کہ آپ یہاں کیوں تشریف لائی ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ لوگوں میں اصلاح کے لیے آئی ہوں ، کیاآپ دونوں ان کی مطابعت کرتے ہو یا مخالفت؟ تو دونوں نے کہا: ہم متابعت کرتے ہیں ۔‘‘ [1] یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کے قاتل وہی لوگ تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ چنانچہ مؤرخ کہتا ہے: جب لوگ اپنے اپنے ٹھکانے پر چلے گئے، اور انہیں اطمینان ہو گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ وزبیر نکلے اور انہوں نے آپس میں گفتگو کی اور اختلافی امور زیر بحث لائے۔ انہوں نے دیکھا کہ جنگ بندی اور صلح سے بڑھ کر بہتر کوئی معاملہ نہیں ۔ پس وہ اپنے مؤقف پر متفرق ہوگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر میں اور حضرات طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما اپنے لشکر میں چلے گئے اور شام کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما کی طرف، اور حضرت طلحہ وزبیر نے محمد بن طلحہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تاکہ ہر گروہ اپنے لشکروں کو سمجھادے۔ کہنے لگے ایسا ہی ہوگا۔ جمادی الآخرہ کی شام کو حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما نے اپنے لشکر کے سرداروں کو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کے سرداروں کو پیغام بھیجا، صرف وہ لوگ رہ گئے جو خون عثمان میں ملوت تھے۔ یہ رات انہوں نے صلح پر گزاری اور یہ رات عافیت کی ایسی رات تھی کہ اس سارے عرصہ میں ایسی رات نہ آئی۔ اس لیے کہ معاملہ افہام وتفہم اور صلح کے دروازہ پر تھا۔ مگر شر پسندوں کے لیے یہ رات سب سے بری رات تھی۔ انہیں اپنی ہلاکت کا یقین ہو گیا تھا۔ پس وہ ساری رات آپس میں مشورہ کرتے رہے۔ صبح کے قریب ان کا اتفاق ہوا کہ خفیہ طور پر جنگ بھڑ کائی جائے، اور اس معاملہ کو انتہائی رازداری میں رکھا کہ کہیں ان کے شر کی خبر لوگوں کو نہ ہو جائے۔ وہ صبح کے اندھیرے میں اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے گئے۔ ان کے اڑوس پڑوس والوں کو بھی اس کی خبر بھی نہ ہو سکی اور پھر اندھیرے میں ہی اپنی کارر وائیوں میں لگ گئے۔ حتیٰ کہ مضرکے لوگ مضر کی طرف، ربیعہ ربیعہ کی طرف، اور یمنی یمنی کی طرف چل نکلے، اور اسلحہ چلنے لگا۔ اہل بصرہ بھی اس جنگ میں کود پڑے حتیٰ کہ دونوں اطراف کے لوگ آپس میں لڑنے لگے۔‘‘[2] مؤرخ طبری کہتے ہیں : ’’اس موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
Flag Counter