Maktaba Wahhabi

134 - 406
بلاد شام میں تخوم البلقاء نامی علاقے کی طرف کوچ کرنے اور اہل موتہ پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ وہاں پر حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضي الله عنهم شہید ہوئے تھے۔ جو کہ مشہور غزوہ موتہ کے لشکر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امراء تھے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تیار ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید کو ان پر امیر بنا دیا۔ حضرت اسامہ بن زید کی امارت کے متعلق لوگوں نے چہ میگوئیاں کیں ۔ ان حضرات میں سے ایک حضرت عیاش بن ابو ربیعہ بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی بات ردّ کر دی اور اس معاملہ کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔‘‘[1] پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: ’’اگر تم اس کی امارت پر نکتہ چینی کرتے ہو، تو اس سے قبل تم اس کے والد کی امارت پر بھی نکتہ چینی کر چکے ہو۔ ہاں اللہ کی قسم! وہ اس امارت کے قابل تھا اور تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھے محبوب تھا اور اب اس کے بعد یہ مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘[2] پس یہ بات تو ظاہر ہے کہ حضرت اسامہ کی امارت پر نکتہ چینی کرنے والے حضرات صحابہ میں سے بعض افراد تھے۔ تمام صحابہ نہیں تھے اور وہ بھی اپنے نقطہ نظر میں مجتہدین تھے۔ انہیں یہ خدشہ تھا کہ کہیں کم عمری کی وجہ سے اس امارت میں کمزوری نہ دکھائیں مگر اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی باتیں ردّ کرتے ہوئے اس معاملہ کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتایا کہ آپ امارت کے قابل اور اہل ہیں ۔ اس کے بعد پھر کسی ایک نے بھی اس مسئلہ پر لب کشائی نہیں کی۔ تو پھر ایسے مسئلہ میں جس میں بعض صحابہ کی رائے کو خود دوسرے صحابہ بھی ردّ کر رہے ہوں تو اس میں ان پر اعتراض اور ملامت والی کون سی بات ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو سمجھا کر منع کیا تو پھر کوئی انسان ایک حرف بھی اپنی زبان پر نہیں لایا۔ یہ کہنا کہ صحابہ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلنے میں دیر کر دی، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام نے جلد ہی سے جنگی تیاریاں کیں اور تمام انتظامات مکمل کر لیے۔ ابن اسحق سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کا لشکر شام کی طرف روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ فلسطین کے علاقہ بلقاء اور داروم پر حملہ کریں ۔ پس لوگ تیار ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کافی تعداد میں مہاجرین اولین رضی الله عنہم کو مبعوث فرمایا۔‘‘ [3]
Flag Counter