Maktaba Wahhabi

62 - 421
زنا انسانی عزت کو مجروح اور پامال کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اس لیے ایک اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے شخص کو قرار واقعی سزا دے۔ شریعت اسلامیہ زنا پر اس لحاظ سے سزا دیتی ہے کہ زنا سماجی وجود اور معاشرتی سلامتی پر اثر انداز ہوتا ہے اور یہ کہ خاندانی نظام (Family System) کو نہایت بری طرح مجروح کر دیتا ہے، حالانکہ خاندان ہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک معاشرہ استوار ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ معاشرے کے مضبوط، پیوست اور ہم آہنگ رہنے کی بہت زیادہ متمنی ہے۔ یورپ اور امریکہ کے قوانین میں اگر باہمی رضا مندی سے کوئی زنا کرے تو پھر سزا کا کوئی جواز نہیں بلکہ بے معنی ہے، اس لیے کہ زنا ان کے نزدیک شخصی امور میں سے ہے نہ کہ معاشرتی اور سماجی امور میں سے، اور اس کے اثرات صرف افراد کے تعلقات پر مرتب ہوتے ہیں نہ کہ سماجی اور معاشرتی مفادات پر۔ مغربی معاشرہ میں اس اباحیت کی وجہ سے ایک انتشار واقع ہوا ہے، اس کا تاروپود بکھر چکا ہے، اس کی وحدت پارہ پارہ ہو چکی ہے اور اس کا سماجی مقام ختم ہو کر رہ گیا ہے جس کی صرف اور صرف یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں برائی کی اشاعت اور اخلاقی بگاڑ عام ہو گیا ہے۔ ان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اباحیت کا اتنا پراپیگنڈہ کیا کہ قانونی طور پر انہیں زنا کی اجازت عام دینا پڑی اور لوگوں کو شہوت رانیوں کے لیے کھلے عام چھوڑ دیا گیا۔ جگہ جگہ جنسی کلب کھل گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کال گرلز کا ایک ہجوم ملک میں پیدا ہو گیا جنہوں نے کلبوں میں جانے کی ضرورت کو گھروں میں پورا کر دیا، اور ایک کال پر وہ گھر پر آ کر گھر کا کلب بنا دیتی ہے۔ زنا کے بارے میں یورپ اور امریکہ میں یہ غلط تصور قائم ہو گیا ہے کہ یہ جرم محض افراد کے بارے میں ہے اور یہ سماج اور معاشرے پر کوئی اثر انداز نہیں ہوتا۔ زنا کی اباحیت نے آج غیر اسلامی ممالک کو اجتماعی اور سیاسی مصائب سے دوچار کر دیا ہے، اور اب یہ وبا رفتہ رفتہ اسلامی ممالک کی طرف بھی آ رہی ہے۔ پاکستان میں موجودہ حکومت حدود آرڈیننس ختم کر کے زنا کو یورپ اور امریکہ کی طرح زنا بالرضاء کو عام کر کے روشن خیال پاکستان بنانا چاہتی ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک میں لوگ شادی کی پابندیوں سے آزاد ہو کر عورتوں سے مستفید ہو رہے ہیں اور اب حالت یہ ہے کہ عورت ایک شے مشترک ہو گئی ہے اور
Flag Counter