Maktaba Wahhabi

47 - 421
ہے بہ نسبت مسلمان کے بدلے مسلمان کے قتل میں، کیونکہ دینی عداوت اسے قتل پر اکساتی ہے خاص طور پر غصے کی حالت میں۔ اگر ذمی کے خون کی حرمت ہی نہ ہو تو پھر عقد ذمہ کے معنی آخر کیا رہ جاتے ہیں؟ نیز اہل ذمہ دارالاسلام کے شہری ہیں، ان کے حقوق وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور ان کی ذمہ داریاں بھی وہی ہیں جو مسلمانوں کی ہیں۔ اگر مرد کسی عورت کو قتل کر دے تو اس کے بدلہ مرد اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح ایک عورت کسی مرد کے قتل کرنے کے جرم میں قتل کی جائے گی کیونکہ بحیثیت انسان دونوں مساوی اور برابر ہیں اور دونوں کی جان یکساں محترم ہے۔ قاتل اور مقتول کے درمیان تعداد کی مماثلت شرط نہیں ہے، مماثلت تو فعل میں فعل کے مقابلہ میں شرط ہے تاکہ دوسروں کو زجر ہو۔ پھر تلافی مافات کے لیے شرط ہے۔ چنانچہ ایک جماعت اگر کسی ایک شخص کو قتل کر دے تو قصاص میں وہ سب قتل کیے جائیں گے اگرچہ فرد واحد اور اس کے درمیان کوئی عددی مماثلت نہیں پائی جاتی، تاہم فعل یعنی قتل اور مافات میں زجر اور تلافی (Copmensation) کے طور پر مماثلت موجود ہے۔ اگر جماعت فرد واحد کو قتل کرے تو اس پر قصاص کو لاگو کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ قتل تو عام طور پر باہم تعاون سے اور مل کر ہی کیا جاتا ہے، لہٰذا اگر اس پر قصاص لاگو نہ کیا جائے تو قصاص کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا کیونکہ پھر تو یہ ہو گا کہ جو شخص بھی کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے کا ارادہ کرے گا وہ دوسروں کو اپنے ساتھ ملا کر ان سے مدد لے لے گا تاکہ اس پر سے قصاص ساقط ہو جائے، اور اس طرح تو وہ مقصد ہی فوت ہو جائے گا جس کے لیے قصاص مشروع ہوا ہے، اور وہ مقصد ہے زندگی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے بھی یہی تھی۔ چنانچہ صنعاء کے ایک مقتول کے مقدمہ میں انہوں نے فرمایا کہ اگر اہل صنعاء سب کے سب اس پر حملہ آور ہوئے ہوتے اور اسے قتل کر دیتے تو میں ان سب کو اس ایک کے قصاص میں قتل کر دیتا۔ نیز مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایک مقتول کے بدلہ میں متعدد قاتلین کو قتل کیا جائے، کیونکہ جب مجرم متعدد ہوں تو ہر ایک کے دل میں قتل کا ارادہ پایا جاتا ہے اور متضرر کی موت سب کے فعل کی وجہ سے واقع ہوتی ہے، اور شرائط قصاص ہر ایک کے بارے میں پوری ہو جاتی ہیں، لہٰذا کسی کو اس لیے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ جرم
Flag Counter