Maktaba Wahhabi

46 - 421
فرمایا: "ہاں خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں اس سے قصاص لوں گا، اور بےشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، آپ نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا تھا۔" (سنن ابوداؤد: 2/268، سنن کبریٰ بیہقی: 8/48) جریر بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر دشمنوں پر غلبہ پایا اور مال غنیمت حاصل کیا۔ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس کو اس کا حصہ دیا اور تمام مال غنیمت نہیں دیا۔ اس نے کہا کہ وہ تمام مال غنیمت لے گا۔ سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس کو بیس کوڑے مارے اور اس کا سر مونڈھ دیا۔ اس نے وہ تمام بال اکٹھے کیے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی شکایت کی اور وہ بال نکال کر دکھائے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا: "سلام کے بعد واضح ہو کر فلاں شخص نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے اور میں نے یہ قسم کھائی ہے کہ اگر واقعی تم نے اس شخص کے ساتھ یہ زیادتی لوگوں کے مجمع میں کی ہے تو میں لوگوں کے مجمع میں تم سے اس شخص کا قصاص لوں گا، اور اگر تم نے تنہائی میں اس شخص کے ساتھ یہ زیادتی کی ہے تو میں تنہائی میں تم سے اس شخص کو قصاص لوں گا۔ لوگوں نے سفارش کی "اور کہا کہ ابو موسیٰ کو معاف کر دیجئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، خدا کی قسم! میں کسی شخص کے ساتھ ہرگز رعایت نہیں کروں گا۔" جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو وہ خط دیا اور قصاص لینے کے لیے تیار ہو گئے تو اس شخص نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا: "میں نے ان کو اللہ کے لیے معاف کر دیا۔" (سنن کبریٰ بیہقی: 8/50) اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قاتل کوئی بھی ہو مقتول کا بدلہ اس سے ضرور لیا جائے گا کیونکہ مقتول کو یہ حق ہے، اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن جائے گی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو جائے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ) (بقرہ: 178) "اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔" اور زندگی کا معنی ذمی کے بدلے مسلمان کے قتل میں زیادہ بہتر طور پر محقق ہوتا
Flag Counter