Maktaba Wahhabi

421 - 421
اسی آیت کی روسے جس طرح حیات کی خلقت ہوئی ہے اسی طرح موت کی بھی اپنی ایک خلقت ہے۔اپنا ایک وجود ہے،لہٰذا اسے محض روح بدن کی مفارقت سے تعبیر کرنا ایک عدمی شے قرار دینا کسی طرح درست نہیں ہوسکتا۔علمائے اسلام نے موت کو ایک عدمی شے قرار دینے کو غلط کہا ہے۔(روح المعانی:29/4) امام رازیؒ نے بھی لکھا ہے کہ موت کوئی عدمی صفت نہیں بلکہ ایک وجودی صفت ہے۔(تفسیر کبیر:8/170) موت کوئی بری شے نہیں بلکہ"مومن کے لیے تحفہ" ہے۔(مستدرک حاکم:4/319) ایک مکان سے دوسرے مکان اور ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونے کا نام موت ہے۔(حلیۃ الاولیاء:5/287) امام احمدؒ نے اپنی مسند میں اور امام سعید بن منصورؒ نے اپنی سنن میں صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اكثروا ذكر هازم اللذات يعني الموت) " تمام لذتوں کو ختم کردینے والی چیز موت کو کثرت سے یاد کرو۔" (ترمذی، رقم: 2308، نسائی:4/4، ابن ماجہ، رقم:4258،حلیتہ الاولیاء:6/355) امام ترمذیؒ نے اس بارے میں ایک اور حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد پیش آنے والے واقعات کے لیے تیاری کرے،اور عاجز اور کم عقل وہ ہے جو اپنے نفس کا اتباع کرے اور اللہ تعالیٰ پر بڑی بڑی امیدیں باندھتا پھرے۔" (ترمذی، رقم:2459، ابن ماجہ:4260، مسند احمد:4/124) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (الموت كفارة لكل مسلم) (حلیتہ الاولیاء:3/121، تاریخ بغداد:1/347) "موت ہر مومن کے لیے گناہوں کا کفارہ ہے۔"
Flag Counter