Maktaba Wahhabi

41 - 421
بلکہ اللہ تعالیٰ نے بغیر قصاص کے کسی شخص کو ناحق قتل کرنے کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنا۔ چنانچہ قرآن حکیم میں فرمایا: (مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ) (المائدہ: 32) "اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس شخص نے بغیر جان کے بدلہ کے یا بغیر زمین میں فساد پھیلانے کے کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا، اور جس نے کسی کو مرنے سے بچا لیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو مرنے سے بچا لیا۔" گویا ایک بے قصور انسان کو عمداً قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا بڑا جرم ہے جتنا تمام انسانوں کو قتل کر دینا۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کو عمداً قتل کرنے کی سزا جہنم مقرر کی اس پر اپنا غضب نازل کیا اور لعنت کی اور اس کے لیے عذاب عظیم تیار کیا۔ اور اگر کوئی شخص تمام انسانوں کو قتل کر دیتا تب بھی اس کی یہی سزا ہوتی۔ نیز اگر تمام انسان کسی ایک بے قصور انسان کے قتل میں عمداً شریک ہوں تو ان سب کو قصاص میں قتل کر دیا جائے گا۔ اس سے پتہ چلا کہ کسی ایک بے قصور انسان کو عمداً قتل کرنا اتنا سنگین جرم ہے جو تمام انسانوں کے قتل کرنے کے برابر ہے۔ اور جس شخص نے ایک انسان کو مرنے سے بچا لیا اس نے گویا تمام انسانوں کو بچا لیا، مثلاً اگر کوئی شخص آگ میں جل رہا تھا یا دریا میں ڈوب رہا تھا، اور کسی شخص نے اس کو اس مصیبت سے نکال کر اس کی جان بچا لی تو اللہ کے نزدیک اس کی یہ نیکی اتنی عظیم ہے جیسے کسی شخص نے تمام انسانوں کو موت کے پنجہ اور چنگل سے آزاد کرا لیا ہو۔ انسانی جان کی عظمت کا اس حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے جس میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: "میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کا طواف فرما رہے تھے اور آپ نے بیت کو مخاطب کر کے فرمایا: "تو کس قدر پاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کس قدر پاکیزہ ہے، تو کتنا عظمت والا
Flag Counter