Maktaba Wahhabi

39 - 421
فرمایا: "کسی مسلمان شخص کو جو اس بات کو شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں (اس کو) قتل کرنا صرف تین میں سے ایک وجہ سے جائز ہے۔ شادی شدہ زانی ہو، کسی مسلمان کا قاتل ہو اور دین اسلام کو ترک کر کے مسلمانوں کی جماعت سے نکلنے والا ہو۔ (بخاری، رقم: 6878، مسلم: 4296، ابوداؤد، رقم: 352، ترمذی، رقم: 1407، نسائی، رقم: 4016، سنن ابن ماجہ، رقم: 2534، ابن حبان: 9/413، سنن دارقطنی: 3/82، شرح السنہ بغوی: 10/147، مسند ابی داؤد طیالسی: 37، مسند احمد: 1/382) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم جس شخص کو قوم لوط کا عمل کرتا دیکھو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔ (سنن ابی داؤد، رقم: 4462، ترمذی، رقم: 1461، ابن ماجہ: 2561، سنن دارقطنی: 3/122، سنن کبریٰ بیہقی: 8/231، معرفۃ السنن، الآثار: 6/350، مستدرک حاکم: 4/355، شرح السنہ بغوی: 10/308، مسند ابو یعلی: 4/348، مسند احمد: 1/300، معجم کبیر طبرانی: 11/212) اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی جانور کے ساتھ بدفعلی کرے تو بدفعلی کرنے والے اور جانور دونوں کو قتل کر دو۔ (سنن ابی داؤد، رقم: 4462، ترمذی: 1460، سنن ابن ماجہ: 2564، سنن دارقطنی: 3/126، مستدرک حاکم: 4/356، معرفۃ السنن والآثار بیہقی: 6/352، مصنف عبدالرزاق: 7/235، مسند احمد: 1/300، معجم اوسط طبرانی: 10/162) یہ سب صورتیں تو حق کے ساتھ قتل کرنے کی ہیں، اور ناحق قتل کرنا اسلام میں بہت بڑا جرم ہے۔ قرآن حکیم میں ہے: (وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا ﴿٩٣﴾) (النساء: 93) "جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اللہ اس پر غضب ناک ہو گا اور اس پر لعنت فرمائے گا، اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔" اور حدیث میں آتا ہے جس کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار
Flag Counter