Maktaba Wahhabi

305 - 421
کر سکتی ہیں۔" کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (انما النساء شقائق الرجال) "عورتیں مردوں کی جنس میں سے ہیں۔" یعنی وہ بھی مردوں کی طرح خصلتیں اور عادتیں رکھتی ہیں کیوں کہ مردوں میں سے نکلی ہیں، اس لئے کہ حواء آدم علیہ السلام سے نکلی تھی۔ (رواہ ابوداؤد: /54، والترمذی: 1/368 والدارمی: 1/207، واحمد فی مسندہ: 6/256، 277، عن عائشہ رضی اللہ عنہا کشف الخفا: 2/454) لیکن اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے درمیان حیاتیاتی فرق رکھا ہے، اس وجہ سے عورت کا حلقہ عمل گھر ہے اور مرد کا گھر سے باہر۔ عورت گھر کی مملکت میں کلی اختیارات رکھتی ہے، اگرچہ یہ تجارت وغیرہ بھی کر سکتی ہے لیکن جب اس کا نان و نفقہ مرد کے ذمہ ہے تو اس کو تجارت کرنے سے احتراز ہی کرنا چاہیے اور پوری توجہ اور دل جمعی کے ساتھ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کرنا چاہیے۔ آج کل تحریک آزادی نسواں میں عورت پر بڑا ظلم کیا گیا ہے۔ فطرت نے جو ذمہ داریاں عورت پر ڈالی ہیں ان کے علاوہ مردوں نے اپنی الگ ذمہ داریاں ان پر ڈال دی ہیں جن کو عورتیں اپنی حماقت کی وجہ سے اپنی آزادی سمجھ بیٹھی ہیں۔ تحریک آزادی نسواں کو پورے دو سو سال ہو گئے، اور ان ملکوں میں یہ تحریک پوری طرح کامیاب ہو چکی ہے جو صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں۔ ان ملکوں میں عورت اور مرد کی برابری کے قوانین بھی بنائے جا چکے ہیں اور قانون یا رواج اور سماج کے لحاظ سے آج کی عورت کے راستہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود عورت اب بھی مرد سے بہت پیچھے اور کم تر ہے اور وہ زندگی کے کسی شعبہ میں مرد کی برابری نہیں کر سکی۔ چنانچہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے: "اقتصادی میدان میں گھر سے باہر کام کرنے والی عورتیں بہت زیادہ تعداد میں کم تنخواہ پانے والے کاموں میں ہیں، اور ان کا درجہ (Status) سب سے کم اور نیچا ہے حتیٰ کہ عورتیں ہر اس کام میں جو عورتیں اور مرد دونوں کرتے
Flag Counter