Maktaba Wahhabi

297 - 421
ایک شہید کی ماں ہے۔ اسلام نے عورت کی شان کو بلند و بالا کیا ہے، اور اس بارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (ما اكرمهن الاّ كريم، ولا اهانهن الاّ لئيم) (رواہ السیوطی فی الجامع الصغیر: 2/4102) "عورتوں کی عزت و تکریم نہیں کرتا مگر کریم اور ان کی اہانت نہیں کرتا مگر بدبخت۔" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جاہلیت میں عورتوں کو ذرہ برابر بھی وقعت اور اہمیت نہ دیتے تھے لیکن اسلام نے ان کو ایک خاص درجہ دیا اور قرآن حکیم میں ان کے بارہ آیات اتریں تو پھر ان کی قدروقیمت اور ان کا مرتبہ و منزلت معلوم ہوئی۔ ایک روز میری بیوی نے کسی معاملہ میں مجھ کو رائے دی۔ میں نے اسے کہا کہ تم کو رائے اور مشورہ سے کیا تعلق؟ اس نے جواب دیا: "یا ابن الخطاب! تم کو ذرا سی بات بھی برداشت نہیں حالانکہ تمہاری بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برابر کا جواب دیتی ہے یہاں تک کہ آپ دن بھر رنجیدہ رہتے ہیں۔" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات سن کر میں فوری طور پر اٹھا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا۔ میں نے کہا: بیٹی! یہ میں نے کیا سنا ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برابر کا جواب دیتی ہو۔" وہ بولی: "ہاں ہم ایسا کرتے ہیں۔" میں نے کہا: "خبردار! میں تمہیں عذاب الٰہی سے ڈراتا ہوں، تم کہیں اس کے گھمنڈ یا دھوکہ میں نہ رہنا جس کے حسن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فریفتہ کر لیا ہے۔ (یعنی عائشہ) (رواۃ البخاری: 3/4629، باب قولہ تعالیٰ تبتغی مرضاۃ ازواجک) اسی سلسلہ میں ایک روایت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر نے کاشانہ نبوت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ ابھی آپ باہر ہی تھے کہ آپ نے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی آواز سے بات کر رہی ہے۔ پس جب آپ کاشانہ نبوت میں داخل ہوئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پکڑ کر کہا: "اے ام رومان کی بچی! تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز سے بولتی ہے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان حائل ہو گئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مارنے کا موقع نہ دیا۔ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر نکلے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ رضی اللہ عنہا کو
Flag Counter