Maktaba Wahhabi

281 - 421
قائم کرنے والا اور اس کی حفاظت کرنے والا۔" (مفردات: ص 416) بعض علماء نے لکھا ہے کہ "مرد عورت کا قوام ہے۔" اس کا مطلب یہ ہے مرد عورت کی ضروریات زندگی پوری کرتا ہے اور اس کا خرچ برداشت کرتا ہے۔ (لسان العرب: 12/503) یہاں مراد یہ ہے کہ مرد عورتوں کے امور کا انتظام اور اس کے وجود کو قائم رکھنے والے ہیں۔ چنانچہ علامہ طبری نے لکھا ہے: (صاروا قواماً نافذ الامر عليهن) (ابن جریر: 3/57) "یعنی مردوں کو عورتوں پر قوام بنایا گیا کیونکہ وہ ان پر امور نافذ کرنے والے ہیں۔" یہی بات امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھی ہے۔ (تفسیر کبیر: 10/88) اللہ تعالیٰ نے مردوں کو ایسا کیوں بنایا؟ آیت کے اگلے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کا جواب دیا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر حیاتیاتی اور فطری اوصاف میں افضیلت دی ہے۔ (بما فضل اللّٰه بعضهم عليٰ بعض) چنانچہ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے: "اس لیے کہ مردوں کو عورتوں پر فطری فضیلت ہے، اور مرد عورت سے بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت مردوں کے ساتھ مختص ہے، اسی طرح سلطنت اور حکومت بھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "وہ قوم کبھی کامیاب و کامران نہ ہو گی جس نے امور سلطنت عورت کے سپرد کر دئیے ہوں۔" مشہور شیعہ مفسر محمد حسین طباطبائی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ "اس آیت سے مراد یہ نہیں کہ شوہر اپنی بیوی پر قوام ہے بلکہ اس سے مراد عمومیت ہے یعنی جنس مرد جنس عورت پر قوام ہے جس کے اثرات اجتماعی امور پر پڑتے ہیں۔ چنانچہ حکومت اور قضا کے لحاظ سے بھی مرد عورتوں پر قوام ہیں یعنی عورت نہ مردوں پر قاضی ہو سکتی ہے اور نہ ہی حاکم کیونکہ ان عہدوں کے لیے جو صفات اور خصوصیات درکار ہیں وہ صرف مردوں میں ہیں عورتیں ان صفات سے محروم ہیں۔" (المیزان فی تفسیر القرآن: 4/343)
Flag Counter