Maktaba Wahhabi

209 - 421
امام ابو یوسف رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خاص شاگرد تھے۔ آپ تین عباسی خلفاء ہادی، مہدی اور ہارون الرشید کے زمانوں میں قاضی القضاۃ (Chief Justice) کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے اپنے عہد قضا میں ہر ممکن کوشش کی کہ فیصلہ عدل و انصاف سے ہو، اور ہارون الرشید خصوصی طور پر آپ کے علم و تقویٰ اور عدالتی فیصلوں سے بڑا متاثر تھا۔ ایک مرتبہ ہارون الرشید قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کے ساتھ بیٹھ کر مختلف مقدمات سن رہا تھا کیونکہ خلیفہ ہفتہ میں کچھ روز خود بھی قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کے ساتھ بیٹھ کر مقدمات سنا کرتا تھا۔ اس روز میں ہارون خود کرسی عدالت پر بیٹھا ہوا تھا کہ نصرانی بڈھے نے خود ہارون الرشید کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا۔ دعویٰ یہ تھا کہ فلاں باغ میرا ہے جس پر خلیفہ نے غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔ قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ نے خلیفہ سے کہا کہ اس بڈھے کا آپ کے اوپر دعویٰ ہے کہ آپ نے مدعی کے باغ پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے۔ خلیفہ کو قاضی کے سامنے دم مارنے کی مجال نہ تھی کیونکہ عدلیہ اس زمانے میں صحیح معنوں میں آزاد تھی، آج کل کی طرح مجبور و مقہور نہ تھی۔ قاضی نے پوچھا: "بڑے میاں! آپ کا دعویٰ کیا ہے؟" اس نے کہا: "میرے باغ پر امیر المومنین نے قبضہ کر لیا ہے جس کے خلاف میں دادرسی چاہتا ہوں۔ قاضی صاحب نے خلیفہ سے کہا کہ آپ اس دعویٰ کے جواب میں کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ ہارون نے کہا: "میرے قبضہ میں اس شخص کی کوئی چیز نہیں، اور نہ خود باغ ہی میں اس کا کوئی حق ہے۔ قاضی صاحب نے مدعی سے اس کے دعویٰ کے ثبوت میں دلیل طلب کی۔ اس نے کہا کہ "امیر المومنین سے قسم لے لی جائے۔" ہارون نے قسم کھا کر کہا کہ یہ باغ میرے والد مہدی نے مجھے دیا تھا۔ میں اس کا مالک ہوں۔ بڈھے نے یہ سنا تو بڑبڑاتا ہوا غصے میں باہر نکل گیا کہ جس طرح کوئی ستو گھول کر پیتا ہے اس طرح اس شخص نے بآسانی قسم کھا لی ہے۔ ایک معمولی آدمی کے منہ سے یہ ہتک آمیز الفاظ سن کر ہارون کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا، لیکن قاضی ابو یوسف کی دینی جلالت و عظمت کے باعث وہ آپ کے عادلانہ فیصلے کے خلاف چوں بھی نہ کر سکا۔ محمد تغلق ہندوستان کا شہنشاہ تھا۔ ایک روز اپنے باغ میں ٹہل رہا تھا کہ اچانک سامنے سے ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور بادشاہ سے ٹکرا گیا۔ بادشاہوں کی نازک مزاجی تو
Flag Counter