Maktaba Wahhabi

208 - 421
لے لیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اب جب کہ تو مسلمان ہو گیا، اب یہ ذرہ میری نہیں بلکہ تمہاری ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: 8/3، اخبار القضاۃ لوکیع: 2/194) مقدمہ کے فریقین کے بارے میں برابری اور مساوات اور پھر عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے، خصوصی طور پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں دنیا میں عدل و انصاف کی مثالیں قائم کیں۔ خلافت راشدہ کے بعد بھی مدتوں تک اگرچہ خود بادشاہوں میں کئی خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں لیکن مسلمانوں کا عدالتی نظام قرآن و سنت پر مبنی قائم رہا۔ عدلیہ بالکل آزاد رہی اور بڑے بڑے لوگ قاضیوں کی عدالتوں میں ملزموں کے طور پر کھڑے رہے۔ اور قاضیوں نے ان بڑوں کے خلاف فیصلے کیے۔ موجودہ دور کی طرح "نظریہ ضرورت" کا استعمال نہیں کیا۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان اور اس کے بعد آنے والے دوسرے خلفاء بھی قاضیوں کے فیصلوں کے خلاف بے بس رہے۔ خلیفہ مامون الرشید ایک روز عدالت میں فیصلے کر رہا تھا تو سب سے آخر میں اس کے پاس ایک عورت آئی جو معلوم ہوتا تھا کہ سفر کر کے آئی ہے اور لباس اس کا پھٹا پرانا تھا۔ وہ خلیفہ مامون الرشید کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور عرض کیا کہ ایک شخص نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ خلیفہ نے پوچھا: "وہ کون ہے؟" اس نے جواب دیا: "امیر المومنین! وہ آپ کے سر کے پاس کھڑا ہے۔" اور اس نے عباس بن مامون الرشید کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ مامون نے کوتوال سے کہا: "اے احمد بن ابی خالد! عباس کو ہاتھ سے پکڑ کر اس عورت کے ساتھ بٹھا دو۔ چنانچہ عباس کو مدعیہ کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔ اب اس عورت نے اونچی آواز سے اپنی روداد غم سنانی شروع کی۔ عورت کی آواز تو اونچی تھی، جبکہ مامون کا بیٹا عباس رک رک کر اور آہستہ آہستہ بول رہا تھا۔ احمد بن ابی خالد نے اس عورت سے کہا: "اے اللہ کی بندی! تو امیر المومنین کے سامنے ہے، اور تو امیر المومنین سے بات کر رہی ہے لہٰذا نیچی آواز سے بات کرو۔ مامون نے یہ سن کر کہا: "احمد! اس کو کچھ نہ کہو، اس کے حق نے اس کی آواز کو اونچا کیا ہے اور عباس کے جھوٹے ہونے نے اس کو گونگا کر دیا ہے۔ پھر مامون نے اس عورت کے حق میں فیصلہ کیا اور اس پر کیے گئے مظالم کا ازالہ کیا۔ اور شہزادے سے جرمانہ کی بڑی رقم وصول کر کے عورت کو دی۔ (حقوق الانسان فی الاسلام للوافی: ص 30)
Flag Counter