Maktaba Wahhabi

205 - 421
نہ مانے (یعنی مدعا علیہ) اس سے قسم لی جائے۔ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا جائز ہے بشرطیکہ اس سے قرآن حکیم کا کوئی قانون نہ ٹوٹے۔ اگر کل تم نے کوئی فیصلہ کیا اور آج اس سے بہتر فیصلہ تمہاری عقل اور سمجھ بوجھ نے تمہیں سجھا دیا تو اپنے پہلے فیصلے کو رد کر سکتے ہو، اس لیے کہ حق ازلی ہے اور اس کی طرف رجوع کرنا غلطی پر اڑے رہنے سے بہتر ہے۔ جس مسئلہ میں شبہ ہو اور وہ تمہیں قرآن و حدیث میں نہ ملے تو اس پر غور کرو، پھر غور کرو اور اس کی امثال و نظائر کو اچھی طرح ذہن نشین کر کے قیاس و اجتہاد سے کام لو۔ کوئی شخص اگر اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے مہلت مانگے تو اسے مہلت دو، اور اگر وہ گواہ پیش کر دے تو اس کا حق دلوا دو، ورنہ مقدمہ خارج کر دو۔ اس سے شک مٹے گا اور ظلم و ستم کی سیاہی دور ہو گی۔ ہر مسلمان ثقہ ہے سوائے ان اشخاص کے جنہیں کسی جرم میں کوڑے لگائے جا چکے ہیں یا جنہوں نے جھوٹی گواہی دی ہو یا ولد و نسب میں مشکوک ہوں۔ تمہاری چھپی ہوئی بد اعمالیوں کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا میں قانونی سزا سے بچنے کے لیے اس نے گواہی میں حلف ضروری قرار دیا ہے۔ خبردار! تمہارے دل میں اہل مقدمہ سے خفگی، اکتاہٹ یا چڑچڑا پن نہ ہو۔ کیونکہ جو شخص حق و انصاف کے موقع پر حق و انصاف قائم کرتا ہے وہ اللہ کے انعام اور اچھی شہرت کا مستحق ہو جاتا ہے۔ جس کسی نے اپنی نیت درست رکھی، اس کے اور لوگوں کے درمیان اللہ کافی ہے، اور جو ان سے بناوٹی اخلاق کے ساتھ پیش آیا اس کے لیے اللہ کے رزق اور رحمت کی امید نہ رکھو والسلام۔ (سنن دارقطنی: ص 513، عیون الاخبار لابن قتیبہ: 1/66، البیان والتبیین، جاحظ: 2/124، نہایۃ الادب نویری: 6/135، مقدمہ ابن خلدون: 1/184، ازالۃ الخفا: 2/119، سنن کبریٰ بیہقی: 10/119) شعبی کا بیان ہے کہ کھجوروں کے کاٹنے پر سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مابین کچھ نزاع ہو گئی۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رو دئیے اور کہا: "عمر!
Flag Counter