Maktaba Wahhabi

202 - 421
وغیرہ کو اس خدمت پر مامور رکھا۔ علامہ سرخسی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ حضرات عہد صدیقی میں قاضی نہیں تھے بلکہ اصحاب افتاء تھے۔ (المبسوط: 16/109) صدر اول میں قاضی کو بھی مفتی کہتے تھے، لیکن اگر یہ قاضی بھی مان لیے جائیں تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ صدیقی دور میں قاضی القضاۃ (Chief Justice) کے عہدہ پر فائز تھے، اور اہم معاملات کا فیصلہ آپ ہی فرماتے تھے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ تاریخوں میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے افتاء کا نہیں بلکہ قضاء کا لفظ آیا ہے۔ طبری میں ہے کہ جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا: "انا اكفيك القضاة" میں آپ کے لیے قاضی کا کام کروں گا، لیکن چونکہ وہ دور خیر القرون کا تھا اس لیے سال بھر تک کوئی جھگڑا اور قضیہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش نہ ہوا۔ (طبری: 2/617) ابن اثیر نے الکامل میں لکھا ہے: "اور اس سال سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو قاضی مقرر فرمایا اور وہ تمام خلافت صدیقی میں قضا کا کام کرتے رہے۔" تاریخ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس حق قضا کو پوری آزادی سے استعمال کیا اور مقدمات کے فیصلہ کے بارے میں وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کی بھی پروا نہ کرتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو قاضی تو آپ تھے ہی لیکن صوبوں کا انتظام، حکومت کے وسیع معاملات اور اعلیٰ سیاست نے انہیں ان تمام ذمہ داریوں سے غافل کر رکھا تھا۔ چنانچہ آپ نے جلد ہی یہ محسوس فرما لیا کہ وہ ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو رہے جن کے بارے میں اپنی بیعت کے روز انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا۔ عراق و شام کے اسلامی لشکروں کی خبریں ان کی بہت سی توجہ اور ان کا بہت سا وقت لے لیتی ہیں، اور مملکت کے مختلف حصوں میں ان کے گورنر کیا کچھ کر رہے ہیں، ان کے بارے میں بھی وہ سوچتے رہتے تھے۔ آپ نے ارادہ فرمایا کہ وہ اپنی مختلف ذمہ داریوں کے بوجھ کو مختلف معاونین کے سپرد کریں جو عوامی مفاد کے لیے اس طرح کام کریں کہ
Flag Counter