Maktaba Wahhabi

192 - 421
ہے۔ بعض احادیث میں معذور افراد کے لیے خادم فراہم کرنے کا ذکر بھی آیا ہے۔ یہ ضرورت ایسی ہے کہ اگر معذور افراد اپنے خاندان والوں کے تعاون سے یا خود اپنے مال کے ذریعہ خادم (نوکر) رکھ کر گزارہ نہ کر سکتا ہو تو حکومت یا معاشرہ کو اس کی یہ ضرورت پوری کرنی چاہیے کیونکہ اگر اسے پورا نہ کیا گیا تو اس کے لیے زندگی گزارنا ممکن نہیں رہے گا۔ بہرحال یہ ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہو گی کہ ہر معذور فرد کو کوئی مناسب سہارا مل جائے۔ اسلامی ریاست جو جہاد بھی کرتی ہے وہ دنیوی اغراض کے لیے جنگ نہیں ہوتی۔ لیکن اگر دین کی راہ میں جہاد کرنا پڑے تو اس سے مسلمانوں کو معاشی فوائد بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ جنگ بدر کے موقع پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعا کی تھی وہ یہاں واضح کرنے کے لیے نقل کی جا رہی ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کی معاشی فلاح بھی مطلوب تھی اور اس کے لیے آپ اللہ سے دعا بھی فرماتے تھے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے موقع پر تین سو پندرہ مجاہدین کے ساتھ جنگ کے لیے نکلے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ خداوندی میں یہ دعا کی: (اللھم انھم حفاۃ فاحملھم، اللھم انھم عراۃ فاکسھم، اللھم انھم جیاع فاشبعھم) "اے اللہ! یہ لوگ پیدل ہیں انہیں سواریاں عطا فرما، یہ لوگ ننگے ہیں ان کو کپڑے پہنا، اے اللہ! یہ لوگ بھوکے ہیں ان کے پیٹ بھر دے۔" چنانچہ حق تعالیٰ نے بدر کی جنگ میں فتح عطا فرمائی، اور جب یہ لوگ واپس لوٹے تو ہر آدمی اپنے ساتھ ایک یا دو اونٹ لے کر لوٹا اور ان کو پہننے کے لیے کپڑے مل گئے اور یہ شکم سیر ہو گئے۔ (ابوداؤد) اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عراق میں جہاد کے لیے جانے والے مسلمانوں سے یہ فرمایا تھا: "ایک ایسی قوم کے ساتھ جہاد کے لیے جاؤ جو امور معاش میں حاوی اور ترقی یافتہ ہے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں سے تمہارا حصہ عطا کرے گا، اور
Flag Counter