Maktaba Wahhabi

191 - 421
جاری و ساری رکھا جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے، اس بارے میں کہ اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ محروم اہل حاجت کی حاجت روائی کا اہتمام کرے امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: "یہ باتیں فرض کفایہ میں شامل ہیں ۔۔۔ مسلمانوں کی تکالیف دور کرنا مثلاً ننگے کو کپڑا پہنانا اور بھوکے کو کھانا کھلانا جب کہ یہ ضروریات زکوٰۃ اور بیت المال کے ذریعہ نہ پوری ہو رہی ہوں۔ (منہاج الطالبین: ص 125) اس کی شرح میں علامہ شہاب الدین رملی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: "ایسا لباس فراہم کرنا ضروری ہے جس سے پورا بدن ڈھک جائے اور جو جاڑے اور گرمی کے حالات کے لیے موزون ہو۔ نیز کھانے اور کپڑے کے ساتھ وہ چیزیں ثابت ہیں جو اتنی ہی ضروری ہوں، مثلاً طبیب کا معاوضہ، ادویات کی قیمت اور معذوروں کے لیے خادم۔" (نہایت المختاج الیٰ شرح المنہاج: 6/194) علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں یہ لکھا ہے کہ: "ملک کے مال دار لوگوں پر فرض ہے کہ اپنے غریب لوگوں کی کفالت کریں۔ اگر زکوٰۃ کی آمدنی اور سارے مسلمانوں کی فئے اس کے لیے کافی نہ ہو تو حاکم وقت ان کو ایسا کرنے پر مجبور کرے گا۔ ان اہل حاجت کے لیے اتنے مال کا انتظام کیا جائے گا جس سے وہ بقدر ضرورت غذا حاصل کر سکیں، اور اسی طرح جاڑے اور گرمی کا لباس اور ایک ایسا مکان جو انہیں بارش، گرمی، دھوپ اور راہ گیروں کی نظروں سے محفوظ کر سکے۔" (المحلی لابن حزم: 6/156) مختصر یہ کہ غذا، لباس اور سر چھپانے کے لیے مکان ایسی بنیادی ضروریات ہیں جن کی تکمیل نہ ہونے سے آدمی کی جان چلی جانے کا اندیشہ ہے۔ لباس میں اوڑھنے اور بچھانے کے لیے اس سامان کو بھی شامل سمجھنا چاہیے جو سردی سے بچاؤ کے لیے ناگزیر ہو۔ یہی حیثیت مریض کے علاج کی ہے۔ چونکہ قیام حیات شریعت کے اولین مقاصد میں سے ہے، لہٰذا ان چار ضروریات کی تکمیل کو لازما کفالت عامہ کے اصول میں شامل کیا جا سکتا
Flag Counter