Maktaba Wahhabi

189 - 421
کے اس مسئلہ کے حل کی فکر کرتے کرتے اس دنیا سے انتقال ہی نہ کر جائیں۔" کفالت عامہ کی اس ذمہ داری کو ہر نیک دل سربراہ مملکت نے محسوس کیا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بارے میں تو کتابوں میں آتا ہے کہ وہ کفالت عامہ کی اس گراں بار ذمہ داری کا خیال کر کے اکثر و بیشتر روتے رہتے تھے کہ کہیں قیامت کے روز عدالت خداوندی کے کٹہرے میں مجرموں کی حیثیت سے نہ کھڑے ہونا پڑے۔ چنانچہ آپ کی اہلیہ محترمہ فاطمہ کہتی ہیں کہ میں ایک روز آپ کے کمرہ میں گئی۔ آپ جائے نماز پر تھے اور آنسوؤں سے آپ کی ریش مبارک تر تھی۔ میں نے پوچھا: "کیا کوئی نئی بات ہو گئی؟" فرمایا: "میں نے پوری امت کی ذمہ داری لے لی ہے، لہٰذا میں بھوکے فقیروں، بے سہارا مریضوں، مجاہدین، مظلوم اور ستم رسیدہ افراد، غریب الدیار قیدیوں، بہت بوڑھے افراد اور ان لوگوں کے بارے میں غوروفکر کر رہا تھا جو بکثرت اہل و عیال والے ہیں مگر مال دار نہیں، اور مختلف علاقوں میں اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں متفکر تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ عنقریب قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مجھ سے ان کے بارے میں پوچھے گا اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں میرے مقابلہ میں ان کے وکیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔ مجھے خطرہ ہوا کہ جرح میں میری بات پایہ ثبوت کو نہ پہنچ سکے گی تو میں اپنی جان پر ترس کھا کر رونے لگا۔" (کامل ابن اثیر: 5/24، کتاب الخراج: ص 10، سیرت عمر ابن عبدالعزیز ابن عبدالحکم: ص 178) انہی عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانہ میں ایک علاقہ میں زبردست قحط پڑا۔ قحط زدہ علاقہ سے کچھ لوگ ایک وفد کی شکل میں آپ کے پاس آئے۔ ان کے رئیس وفد نے کہا: "امیر المومنین! ہم ایک شدید ضرورت کی وجہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ہمارے جسم کی چمڑی سوکھ گئی ہے کیونکہ اب ہڈیاں بھی میسر نہیں آتیں، اور ہماری مشکل کا حل صرف بیت المال کے ذریعہ ممکن ہے۔ آپ کے اس حکومتی خزانہ کی حیثیت تین میں سے ایک ہو سکتی ہے، یا تو یہ اللہ کے لیے ہے، یا بندگانِ خدا کے لیے، یا پھر آپ کے لیے۔ اگر یہ اللہ کے لیے ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر یہ بندگانِ خدا کے لیے ہے تو اسے
Flag Counter