Maktaba Wahhabi

188 - 421
عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال کے نگران کو ہدایت فرمائی تھی کہ ضرورت مند غیر مسلموں کا پتہ لگا کر ضروریات زندگی کی تکمیل کا اہتمام کیا جائے۔ غیر مسلم رعایا کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے، کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانوں میں بھی غیر مسلم رعایا کے ساتھ ایسا اچھا سلوک کیا گیا کہ آج بھی دنیا تعجب کرتی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کے ساتھ جو عیسائی تھے، معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ: "میں نے ان کا یہ حق قرار دیا ہے کہ ایسا بوڑھا آدمی جو محنت کرنے سے معذور ہو جائے، یا اس پر کوئی مرض یا مصیبت آن پڑے، یا جو آدمی پہلے مال دار رہا ہو اور اب ایسا غریب ہو جائے کہ اس کے ہم مذہب اسے خیرات دینے لگیں، اس کا جزیہ ساقط کر دیا جائے، اور جب تک وہ دارالاسلام اور دارالہجرت میں مقیم رہے گا اس کی اور اس کے اہل و عیال کی کفالت مسلمانوں کے بیت المال سے کی جائے گی۔" (کتاب الخراج لابی یوسف: ص 172) (ايها الناس! ان اللّٰه قد كلفني ان اصرف عنه الدعا) (قواعد الاحکام فی مصالح الانام: 1/148، العز الدین بن عبدالسلام) "اے لوگو! مجھ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ میں اللہ کے حضور کی جانے والی دعاؤں کو روکوں۔" اللہ کے حضور کی جانے والی دعاؤں کو روکنے کا مطلب یہ ہے کہ سربراہ ریاست ظالموں کے مقابلہ میں مظلوموں کے ساتھ انصاف کرے تاکہ ان کے ہاتھ انصاف کی طلب میں آسمان کی طرف نہ اٹھیں۔ اسی طرح وہ لوگوں کی ضروریات زندگی اور ان کی حاجتیں پوری کرے تاکہ انہیں سے ان کی تکمیل کی دعا کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ عام الرمادہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا تاریخ کے اوراق نے ان سب کو اپنے سینہ میں محفوظ رکھا ہوا ہے، اور قحط کا وہ زمانہ گزر جانے کے بعد لوگ کہہ اٹھے: "اگر اللہ تعالیٰ عام الرمادہ میں قحط دور نہ کر دیتا تو ہمیں خطرہ تھا کہ عمر مسلمانوں
Flag Counter