Maktaba Wahhabi

175 - 421
میسر آ جائے۔ (رواہ ابوداؤد فی باب زکوٰۃ الفطر) حاکم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے (مستدرک حاکم: 1/409) اور کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری کی شرائط کے مطابق ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔ امام دارقطنی نے بھی اپنی سنن: ص 219 میں اس کو روایت کیا ہے۔ (مرقاۃ: 4/173، نصب الرایہ: 2/411) زکوٰۃ الفطر اور دوسری زکوٰۃ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ الفطر اشخاص اور افراد پر عائد ہوتی ہے جب کہ دوسری زکوٰۃ مال پر عائد ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے فطرانہ میں ملکیت نصاب وغیرہ کوئی شرائط نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے فقہاء نے اسے اشخاص کی زکوٰۃ کہا ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ الفطر کی فرضیت کا اعلان رمضان میں فرمایا کہ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہر مسلمان آزاد اور غلام، مرد اور عورت پر فرض ہے۔ (رواہ الترمذی، رقم: 676، وقال حدیث حسن صحیح) شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک زکوٰۃ الفطر فرض ہے اور بعض شوافع اور بعض مالکیوں کے نزدیک صدقہ فطر سنت۔ داؤد ظاہری کا بھی یہی قول ہے۔ (نووی: 1/317) اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صدقہ فطر واجب ہے۔ (ہدایہ مع فتح القدیر: 2/218) ائمہ ثلاثہ چونکہ فرض اور واجب میں فرق نہیں کرتے اس لیے وہ صدقہ فطر پر فرض اور واجب دونوں کا اطلاق کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نگاہ چونکہ دقیق اور گہری ہے، اس لیے وہ فرماتے ہیں کہ جس شے کا لزوم قرآن حکیم سے دلالت قطعیہ سے ثابت ہو وہ فرض ہے، اور جس چیز کا لزوم احادیث اور اخبار احاد سے ثابت ہو، وہ واجب ہے، اور صدقہ فطر کا لزوم چونکہ احادیث سے ثابت ہے، اس لیے وہ واجب ہے۔ اور عید الاضحیٰ پر قربانی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (من وجد سعة لأن يضحي فلم يضح، فلا يحضر (وفي رواية فلا يقربن) مصلانا) (رواه الحاكم مرفوعاً و صححه موقوفاً، الترغیب والترہیب: 1/277)
Flag Counter