Maktaba Wahhabi

151 - 421
اس وقت تک جسم صحیح طور پر تندرست نہیں رہ سکتا، اسی طرح جب تک دولت تمام معاشرہ میں گردش نہ کرے اور ہر شخص کی جیب تک پیسہ نہ جائے معاشرہ صحیح طور پر درست نہیں رہ سکتا۔ سرمایہ داری کے اس کافرانہ نظام میں دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ پیدائش دولت کے باب میں رزق حلال کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں جو لوگ زیادہ سرمایہ دار ہوتے ہیں ان کی پیدائش دولت کے طریقے اکثر و بیشتر ناجائز اور حرام ہوتے ہیں۔ رزق حلال کی جدوجہد ذاتی اغراض کے ٹکڑاؤ سے معاشرہ کو محفوظ کر دیتی ہے اور انسانی توانائیاں مثبت اور مفید تعمیری کاموں پر مرکوز ہو جاتی ہیں جس سے دولت کی پیدائش کا عمل تیز اور مفاسد سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ معاشرہ کے تمام افراد کو اپنی صلاحتیں بیکار چھوڑنے کے بجائے مفید پیداواری کاموں میں صرف کرنی چاہئیں۔ گداگری اور طفیلی پن کی ہر شکل معاشرہ کے توازن کو خراب کر دیتی ہے۔ اسلام نے اکتساب مال کے ایسے تمام ذرائع کی سختی سے ممانعت کر دی ہے، چنانچہ منشیات، سود، جوا، رشوت، لاٹری، چوری، ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹ، فحش اور مخرب اخلاق اشیاء کی پیدائش اور فروخت، قحبہ گری، عفت فروشی، رقص و سرود، کلب اور اس طرح کی دیگر اشیاء کی سرگرمیوں کے ذریعہ روزی کمانا اور ان کی خریدوفروخت اور ان کی پیدائش میں کسی قسم کی معاونت کو حرام اور ناجائز قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس سے لاتعداد اور ان گنت معاشی، اقتصادی، معاشرتی، سماجی اور اخلاقی مفاسد جنم لیتے ہیں، اور معاشرہ کے حسن اور اس کے سکون کو تہ و بالا کر کے رکھ دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں اسلامی نظام معیشت میں ضرر اور غرر، اکراہ اور بیگار اور اس قسم کے دیگر ذرائع آمدنی کی بھی ممانعت کر دی گئی، کیونکہ اس سے نہ صرف انسانی عظمت پر دھبہ لگتا ہے بلکہ معاشی سرگرمیوں کا توازن بھی یک قلم بگڑ جاتا ہے۔ جب دولت کی پیدائش پر اس قدر پابندیاں اور قدغنیں ہوں تو یقین جانئے نہ تو اس زمانہ میں کوئی شخص کروڑ پتی اور ارب پتی ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی غریب ایسی غربت کی زندگی بسر کر سکتا ہے جس میں اس کو اپنی غربت کا احساس ہو۔ اسلام نے اسراف و تبذیر کی مذمت کے ساتھ ساتھ بخل اور شح کی بھی مذمت کی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب و سزا کی سخت وعید بھی اسی سلسلہ کی کڑی
Flag Counter