Maktaba Wahhabi

130 - 421
اور بھی کئی آیات میں اموال کی نسبت انسانوں کی طرف کر کے ان کے تملک کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اسلام کا سارا ڈھانچہ انفرادی ملکیت پر قائم ہے۔ یہ اصول تسلیم نہ کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ اسلام کے معاشی قوانین بیکار ہو کر رہ جائیں گے بلکہ دین اسلام کا ایک رکن زکوٰۃ بھی عملاً غیر ضروری قرار پائے گا۔ اسی طرح اس کا دوسرا رکن حج بھی کروڑوں افراد کے لیے عملاً ختم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ معاشی قوانین کا عظیم الشان مسئلہ میراث بھی باقی نہ رہے گا۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے معاشی قوانین انفرادی ملکیت کی اساس پر قائم ہیں، اسی لیے اس اصول پر الگ سے دلیل کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ زکوٰۃ اور میراث کے بارے میں آیات، انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں آیات قرآنیہ، قرض اور خریدوفروخت سے متعلق آیات، خلع اور مسئلہ رضاعت کے احکام پر مشتمل آیات، نیز ان مسائل اور دیگر مسائل سے متعلق کثیر التعداد احادیث سب کی سب انفرادی ملکیت کے دلائل و براہین ہیں۔ اسی طرح کم ناپنے، کم تولنے کی ممانعت، چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا، غصب اور رہزنی کی سزا، کسی کا مال تلف کر دینے پر تاوان ادا کر دینے کی سزا اور اس طرح بیسیوں مسائل پر جو آیات و احادیث موجود ہیں، وہ سب انفرادی ملکیت کے دلائل و براہین ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل اور اپنی کتابوں کے واسطہ سے اپنے ہر ہر بندے پر جو حقوق و فرائض عائد کیے ہیں، جن اخلاقی اقدار کو تسلیم کرنے اور ان کی نگہداشت کرنے کا پابند کیا ہے، اور جس نوع کی زندگی بسر کرنے کا مطالبہ کیا ہے، وہ اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اس کی حاصل کی ہوئی چیزوں پر ان کے مالکانہ حقوق تسلیم نہ کیے جائیں۔ فی الواقع انفرادی ملکیت کے حق کی نفی اس نقطہ نظر کی نفی ہے جو اسلام نے زندگی کے بارے میں عطا کیا ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص یا گروہ اس نقطہ نظر کو ماننے سے انکار کر دے، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اسے صحیح بھی تسلیم کرے۔ اس پر ایمان کا مدعی بھی ہو اور پھر انفرادی ملکیت کے حق سے انکار کی بھی کرے کیونکہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی اس طرح ضد ہیں جیسے سیاہی اور سفیدی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
Flag Counter