Maktaba Wahhabi

112 - 421
عدل و احسان میں بھی اسلام نے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں مساوات کو قائم رکھا اور لوگوں کو تاکید کی کہ ان کے ساتھ اچھا معاملہ کیا جائے اور اپنی زبان اور اپنے ہاتھ ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دی جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے، یا اس کے حق میں کوئی کمی کرے، یا اس کو اس کے طاقت سے زیادہ تکلیف دے، یا اس کی خوش دلی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لے، تو میں قیامت کے روز اس کی طرف سے وکیل اور جھگڑا کرنے والا ہوں گا۔" کسی ذمی کو قتل کرنا، اس کی عزت و آبرو سے کھیلنا تو بہت بڑی بات ہے اسلام نے تو ذمی کی غیبت کو بھی حرام قرار دیا ہے اور اس پر کسی قسم کا ظلم کرنا ناجائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: "جس شخص نے کسی مسلمان کے ذمہ کو جو اس نے کسی ذمی سے کیا تھا، توڑ دیا اور برقرار نہ رکھا، اس پر اللہ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرضی عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔" اور جو لوگ غیر اسلامی ممالک میں سکونت پذیر ہیں لیکن ان سے معاہدہ ہو چکا ہے، ان کو خلاف عہد تکلیف پہنچانا اور قتل و غارت کرنا معصیت اور گناہ کبیرہ میں داخل ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ میں یہ شرط کی تھی کہ جو مسلمان دین اسلام کو قبول کر کے مسلمانوں کے پاس آ جائے گا، مسلمان اس کو واپس کر دیں گے۔ چنانچہ جب کفار مکہ نے ابوجندل رضی اللہ عنہ اور ابوبصیر رضی اللہ عنہ کی واپسی کا مطالبہ کیا تو ان کی ہزار منت سماجت کے باوجود آپ نے ان دونوں کو بے تامل واپس کر دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم کی پابندی اس حد تک کی کہ اس سے بڑھ کر پابندی ناممکن تھی۔ چنانچہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ دشمن کے ساتھ ایک مدت کے لیے التواء جنگ کا معاہدہ کر لیا تھا۔ اس عرصہ میں وہ چپکے چپکے سرحد پر جنگ کی مکمل تیاریاں کرتے رہے تاکہ مدت التوا ختم ہوتے ہی اچانک حملہ کر دیں۔ ان کی رائے میں یہ بات تدابیر جنگ کے اقتضاء کی وجہ سے ناجائز نہ تھی۔ دوسرے ان کو یہ بھی اندیشہ تھا کہ دشمن بھی اسی فکر میں ہو گا کہ مدت ختم ہوتے ہی فوراً حملہ کر دے۔
Flag Counter