Maktaba Wahhabi

111 - 421
اس آیت میں ایک تو امانتیں ان کے اہلوں کے سپرد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور دوسرے لوگوں کے درمیان عدل کا حکم دیا گیا۔ مسلمانوں کے درمیان عدل نہیں بلکہ لوگوں کے درمیان عدل کا حکم ہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ چنانچہ امام عادل کی حدیث میں فضیلت بیان کی گئی اور امام ظالم کی مذمت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قاضی ظلم نہ کرے۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب اور اس کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب شخص امام عادل ہو گا اور سب سے زیادہ مبغوض اور سب سے زیادہ دور امام ظالم ہو گا۔ (ترمذی، رقم: 1335) اور ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس روز کوئی سایہ نہیں ہو گا اس روز سات آدمی اللہ کے سایے میں ہوں گے ان میں سے پہلا شخص عدل کرنے والا حاکم ہے۔" (بخاری، رقم: 660، مسلم، رقم: 1031، ترمذی، رقم: 291، مسند احمد: 2/439، مسند ابوداؤد الطیالسی، رقم: 2462، صحیح ابن حبان، رقم: 4469، ابن خزیمہ، رقم: 358، سنن کبریٰ بیہقی: 3/65) پھر عدل کرنے والے حاکم کے بارے میں یہاں تک فرمایا کہ عدل کرنے والے حاکم کا ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے، اور زمین میں اللہ کی حد کو قائم کرنا اس زمین پر چالیس روز کی بارش سے زیادہ نفع آور ہے۔ (معجم کبیر طبرانی، رقم: 11932، سنن کبریٰ بیہقی: 8/162، بیہقی شعب الایمان، رقم: 7379) اسلام کی رو سے ایک اسلامی ریاست میں ذمیوں اور غیر مسلموں کے وہی حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور ایک اسلامی حکومت کا یہ فریضہ ہے کہ جس طرح وہ مسلمانوں کی رعایت میں لڑتے ہیں مسلمانوں کو بھی ان کے لیے لڑنا چاہیے۔ اور ان کے فیصلے ان کے قوانین کے مطابق کرنے چاہئیں، ان کے عقائد کا احترام کرنا ضروری ہے، ان کی عیدوں کے موقع پر ان کو عدالتوں میں نہیں بلانا چاہیے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو آپ نے یہود کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: "تم لوگ یہودی ہو، تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم سبت کے دن زیادتی نہ کرو۔" (ترمذی، رقم: 2733، وقال: حدیث حسن صحیح)
Flag Counter