Maktaba Wahhabi

101 - 421
ہوئے ہوں تو نماز پڑھو، اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔" سلام میں مساوات انسانی کا یہ لحاظ رکھا گیا کہ جو اونچا ہے اور اس کو نیچے کیا گیا۔ چنانچہ فرمایا: (بسلم الراكب علي الماشي، والماشي علي القاعد) "سوار پیدل کو سلام کرے اور پیدل بیٹھنے والے کو سلام کرے۔" آج کل مساوات کا تصور صرف کتابوں میں رہ گیا ہے، موجودہ دور میں لوگوں کو سونے اور چاندی میں تول کر اس کی حیثیت مقرر کی جاتی ہے۔ جو امیر ہے اس کے مقام کو ایک غریب کبھی نہیں پا سکتا خواہ غریب میں کتنی ہی خوبیاں کیوں نہ ہوں، لیکن چونکہ اس کے پاس مال نہیں۔ اس کا دامن دولت سے بھرا ہوا نہیں ہے، اس وجہ سے اس کی موجودہ سرمایہ دارانہ معاشرہ میں کوئی وقعت اور اہمیت نہیں ہے۔ اسلام نہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی طرح ہر قسم کی چھٹی دیتا ہے کہ جس طرح انسان چاہے کمائے اور جس طرح چاہے صرف اور خرچ کرے اور نہ وہ اشتراکی نظام معیشت کی طرح فرد کو مشین کا ایک پرزہ بنا کر رکھ دیتا ہے۔ وہ نہ تو یہ کہتا ہے کہ تمام جائیداد کا مالک انسان ہے اور ہر فرد جس طرح چاہے اس میں تصرف کر سکتا ہے اور نہ وہ ملک کی تمام جائیداد کا مالک اسٹیٹ کو قرار دے کر انفرادی سرمایہ داری کے بجائے ریاستی چور بازاری اور ریاستی ارتکاز و احتکار کو جنم دیتا ہے۔ اسلام دراصل تمام نظام ہائے زندگی کے محاسن کا ایک مرکب ہے جس سے ہٹ کر آگے اور پیچھے سوائے تباہی اور بربادی کے اور کچھ نہیں۔ اسلام اقتصادی اور معاشی بنیادوں پر آدمی اور آدمی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا کیونکہ اس کے نزدیک مختلف کام کرنے سے آدمی اور آدمی میں کوئی اہم فرق نہیں پیدا ہو جاتا۔ اسلام میں فرق صرف اور صرف ایک ہی چیز سے پیدا ہوتا ہے، اور وہ ہے آدمی کا اخلاق، کردار اور تقویٰ۔ چنانچہ حدیث میں ہے: (لا فضل لاحد عليٰ احد الا بدين و تقويٰ) "کسی شخص کو کسی دوسرے شخص پر کوئی فضیلت نہیں مگر دین داری اور پرہیزگاری کے اعتبار سے۔"
Flag Counter