Maktaba Wahhabi

64 - 453
کے جواز کی گنجائش کہاں نکل سکتی ہے؟ اس لیے جس طرح مذکورہ کام حرام ہیں ، اسی طرح بیوٹی پارلر کا کاروبار بھی حرام ہے کیونکہ ان میں مذکورہ حرام کام ہی کیے جاتے ہیں یا پھر ان میں مذکورہ چیزوں کی تربیت دی جاتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے: "أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللہ إِنَّ لِي ضَرَّةً فَہَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ إِنْ تَشَبَّعْتُ مِنْ زَوْجِي غَيْرَ الَّذِي يُعْطِينِي فَقَالَ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ"[1] ’’ایک عورت نے کہا: اے اللّٰہ کے رسول! میری ایک سوکن ہے ، اگر میں اس کے سامنے کسی چیز کی بابت یہ ظاہر کروں کہ یہ مجھے میرے خاوند نے دی ہے جب کہ وہ چیز اُس نے مجھے نہ دی ہو، تو کیا اس سے مجھ پر گناہ ہو گا؟ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی ایسے ظاہر کرے کہ یہ چیز، میری ہے (یا مجھے دی گئی ہے) حالانکہ (وہ اس کی نہ ہو) نہ اس کو دی گئی ہو، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مکروفریب کے دو کپڑے پہنے ہو۔‘‘ وضاحت: اس حدیث سے جہاں یہ و اضح ہوتا ہے کہ ایک شخص کی دو بیویوں کو آپس میں ایک دوسرے کو جلانے کے لیے (سوکناپے میں) جھوٹ بول کر یہ تأثر دینا منع ہے کہ اس کا خاوند (دوسری بیوی کے مقابلے میں) اس پر زیادہ مہربان ہے اور اِس کو اُس نے فلاں چیز لا کردی ہے جب کہ خاوند کا کردار ایسا نامنصفانہ نہ ہو۔ اس ممانعت سے مقصود جہاں جھوٹی شان وشوکت کے اظہار سے روکنا ہے، وہاں آپس میں فساد اور بگاڑ کا سدباب بھی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ممانعت کو جس بلیغ طریقے اور ایک تمثیلی انداز سے بیان فرمایا ہے، اس نے اس ممانعت کے مفہوم میں بڑی وسعت پیدا کردی ہے جس نے مکر و فریب کی ساری صورتوں اور جھوٹے وقار کے سارے طور طریقوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ ہماری شادی بیاہوں میں اس جھوٹے وقار کا بھی عام مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً کسی عورت کے پاس
Flag Counter