Maktaba Wahhabi

96 - 389
يستره) "اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز ادا کر رہے تھے آپ کے آگے کوئی ایسی چیز نہ تھی جو آپ کا سترہ بنتی۔"(فتح الباری 1/571) بعض متاخرین عطاء وغیرہ نے کہا ہے غیر جدار سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ دیوار کے علاوہ بھی کوئی چیز نہ تھی،لیکن اس قول پر یہ مواخذہ کیا گیا ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنے گزرنے کے بارے میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے انکار کرنے کے بارے میں خبر دینا اس بات کی علامت ہے کہ کوئی ایسا معاملہ پیش آیا جو پہلے نہ ہوتا تھا۔اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہاں دیوار کے علاوہ کوئی سترہ تھا تو یہ خبر دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔سترہ ہونے کی صورت میں گزرنے پر کوئی بھی انکار نہ کرتا۔انکار تبھی ہوتا جب سترہ نہ ہوتا۔شارح بخاری ابو الحسن علی بن خلف المعروف ابن بطال فرماتے ہیں:اس حدیث میں دلیل ہے کہ امام کے لئے جائز ہے کہ وہ سترہ کے بغیر نماز پڑھے۔(شرح صحیح البخاری 1/162) صحیح البخاری کی حدیث کا مفہوم متعین کرنے کے لئے حافظ ابن حجر عسقلانی نے جو مسند بزار کی روایت تائید میں پیش کی ہے کہ غَيْرِ جِدَارٍ سے مراد سترہ نہ تھا۔مسند بزار فی الحال 9 جلدوں میں طبع ہو کر آئی ہے،ابھی یہ مسند ناقص ہے،باقی جلدیں ابھی طبع نہیں ہوئیں۔مطبوعہ جلدوں میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مسند نہیں ہے،البتہ ابن بطال نے شرح صحیح البخاری 2/129 میں اس کی سند ذکر کی ہے جو بشر بن آدم کی وجہ سے حسن معلوم ہوتی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سترے کے وجوب کا حکم لگانا مشکل ہے البتہ افضل اور مستحسن و مسنون ضرور ہے واللہ اعلم،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد و غیر مسجد میں اس کا اہتمام کرتے تھے۔اگر کسی موقع پر سترہ نہ رکھا گیا ہو تو نماز ہو جائے گی۔
Flag Counter