Maktaba Wahhabi

322 - 389
وهي أصرح دليل على اعتبار الولي وإلا لما كان لعضله معنى ولأنها لو كان لها أن تزوج ونفسها لم تحتج إلى أخيها(فتح الباری 9/94) یہ آیت ولی کے معتبر ہونے پر سب سے زیادہ واضح دلیل ہے۔اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہوتا تو اس کے روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا اور اگر عورت کے لیے اپنا نکاح خود کرنا جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی۔ نابالغ لڑکی کا نکاح سوال:ایک شخص نے اپنی بیٹی کا بچپن میں نکاح کر دیا،کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ اگر صحیح ہو تو لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟ جواب:قرآن و سنت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نکاح صحیح ہے اور لڑکی بالغ ہونے کے بعد اس نکاح پر راضی رہے تو تجدید نکاح کی ضرورت نہیں اور اگر بلوغت کے بعد اس نکاح پر رضا مند نہ ہو تو اسے فسخ نکاح کا اختیار ہے،نابالغ لڑکی کے نکاح کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہے: "تمہاری وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اور وہ جنہیں حیض نہیں آیا اگر تمہیں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے۔"(الطلاق:4) اس آیت کریمہ میں اللہ نے طلاق یافتہ عورتوں کی عدت بیان کی ہے کہ ان طلاق یافتہ عورتوں میں سے جو عمر رسیدہ ہو چکی ہوں اور ان کے ایام ماہواری آنے سے پہلے بند ہو چکے ہوں یا ابھی نابالغ ہیں جن کو حیض بالکل نہیں آیا ان کی عدت تین ماہ ہے۔ ظاہر ہے طلاق نکاح سے پہلے نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس چیز کا انسان مالک نہیں اس میں طلاق نہیں۔"(ترمذی،ابوداؤد) امام بخاری نے بھی صحیح البخاری کتاب النکاح میں اس آیت کریمہ سے
Flag Counter