Maktaba Wahhabi

336 - 389
جاتی تھیں تو ان پر ایک طلاق کے وقوع کا حکم لگایا جاتا تھا۔پھر عمر رضی اللہ عنہ نے سیاسی اور تہدیدی طور پر تین کا نفاذ کیا۔فقہ کی ان محولہ کتب سے بھی معلوم ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا،اصل شرعی فیصلہ وہی تھا جو دورِ رسالت میں بلکہ خود عہد عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی سالوں میں نافذ تھا۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو تین طلاقیں اکٹھی دے دیں،پھر وہ اس پر بڑے رنجور و مغموم ہوئے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ پہنچا تو آپ نے بلا کر دریافت کیا کہ تم نے طلاق کیسے دی تھی؟ انہوں نے کہا:میں نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں،آپ نے فرمایا:یہ تو ایک ہی طلاق ہے اگر چاہو تو رجوع کر لو،چنانچہ انہوں نے رجوع کر لیا۔ (مسند احمد،مسند ابی یعلی،فتح الباری،اغاثۃ اللھفان) اس حدیث کے متعلق فتح الباری شرح صحیح البخاری 9/362 کتاب الطلاق میں لکھا ہے کہ یہ حدیث تین طلاق کے مسئلہ میں نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے جس میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ان احادیث صحیحہ کی روشنی میں طلاق دہندہ کو دورانِ عدت رجوع کرنے کا مکمل حق حاصل ہے اور اگر عدت گزر چکی ہے تو ازسرنو نکاح کیا جائے گا جس میں نئے مہر کا تعین،ولی کی اجازت،عورت کی رضامندی اور دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے،جو لوگ تینوں طلاقیں نافذ کر کے حلالہ کا دروازہ دکھاتے ہیں انہیں اپنے غیور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد رکھنا چاہیے کہ حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے پر اللہ کی پھٹکار و لعنت ہو۔(بیہقی،نسائی،ابن ماجہ وغیرہا) حالت حمل میں طلاق سوال:ایک شخص نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی اور بیوی حالت حمل میں تھی،چار ماہ بعد بچہ پیدا ہوا،تقریبا ایک سال سے اوپر عرصہ گزر چکا ہے اب میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں کیا کوئی گنجائش شریعت میں موجود ہے؟
Flag Counter