Maktaba Wahhabi

310 - 389
لیے حلال بنا لو،فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حق مہر تھا۔تفصیل کے لیے دیکھیں۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی 3/60 البدایہ والنہایہ 3/302 اسد الغابہ 8/215،216) اس واقعہ سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ کائنات کے افضل ترین بندوں میں سے علی مرتضیٰ اور فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہما کی شادی پر نہ بارات کا میلہ اور نہ ہی رسم و رواج کا کوئی دخل۔علی رضی اللہ عنہ اکیلے ہی منگنی کے لیے گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق مہر پوچھ کر اپنی پیاری لخت جگر فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کا نکاح کر دیا۔صحیح اسلامی طریقہ ہی یہی ہے کہ جس گھر میں نکاح کا ارادہ ہو وہاں لڑکا پیغام نکاح دے۔وہ گھر والے منظور کر لیں تو جلد نکاح کر دیں۔رسم و رواج کا قطعا انتظار نہ کریں۔اسی میں خیر و فلاح ہے۔اللہ تعالیٰ صحیح سنت رسول پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے اور ہر قسم کے ہندوانہ رسم و رواج سے بچائے۔آمین شادی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانا کھلانا سوال:آپ کا مضمون"شادی کے کھانے کی شرعی حیثیت"غزوہ میں نظروں سے گزرا،آپ نے ولیمہ پر مدلل بحث کی ہے مگر اصل چیز ہے شادی ہال میں لڑکی والے کی طرف سے دی جانے والی دعوت جس پر آج کل اخبارات میں بھی بحث جاری ہے۔براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں اس پر بھی تفصیلا ارشاد فرمائیے تاکہ لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوں۔(راؤ اسلام الدین ابو شاہد 2/18 وحدت پارک لاہور) جواب:اگر آپ اس مضمون کو غوروتدبر سے پڑھتے تو اس سوال کا جواب آپ کو اس مضمون میں مل جاتا،قرآن و سنت کی رو سے شادی کے موقع پر جو دعوت ثابت ہے وہ ولیمہ ہے جس کے میں نے کئی ایک دلائل ذکر کئے۔اور محدثین نے جو دعوت کی اقسام بیان کی ہیں ان کا بھی اجمال سے تذکرہ کیا ہے،جس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ لڑکی والوں کے گھر جو بارات لے کر لڑکے والے جاتے ہیں اور لڑکی والے اپنے دوست و احباب کو بلا لیتے ہیں اور پھر ان سب کے لئے ضیافت کا بندوبست کیا
Flag Counter