Maktaba Wahhabi

308 - 389
سب سے زیادہ خاوند کے حق کو پہچاننے والی،پھر میں ایک ماہ تک سعید بن المسیب کے ہاں نہ گیا،پھر اس کے بعد ان کے ہاں آیا،وہ اپنے حلقہ درس میں تھے میں نے سلام کیا،انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور اختتام مجلس تک کوئی بات نہ کی،جب میرے علاوہ سب چلے گئے تو انہوں نے کہا:اس انسان کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا بہت اچھا اے ابو محمد،جسے دوست پسند کرتا ہے اور دشمن ناپسند کرتا ہے،کہنے لگے اگر تمہیں کوئی چیز مکروہ لگے تو لاٹھی سے کام لو،میں اپنے گھر واپس آ گیا انہوں نے مجھے 20 ہزار درہم بھیجے۔ملاحظہ ہو۔(حلیۃ الاولیاء 2/167،168 سیر اعلام النبلاء 4/233،234)امام سعید بن المسیب کے اس واقعہ سے ہمارے لئے کئی ایک مسائل نکلتے ہیں۔شادی بیاہ کے موقعہ پر رسم و رواج کا سلف صالحین کے ہاں کوئی تصور نہ تھا۔بارات،جہیز،مکلاوہ،سہرے گانے،ڈھول وغیرہ سب ہندوانہ رواج ہیں جو برصغیر پاک و ہند میں مسلم ہندو اختلاط کی وجہ سے پھیل چکے ہیں۔ہمیں ہر قسم کے رسم و رواج اور بدعات و خرافات سے اپنے ماحول کو پاک و صاف کرنا چاہیے۔امام سعید بن المسیب کی بیٹی کی شادی ایک بادشاہ کے بیٹے کی بجائے ایک دیندار شخص سے ہوئی اور شادی کے دوسرے دن بیٹی کو لینے نہیں چلے گئے تھے بلکہ ان کا داماد ایک ماہ بعد اکیلا حاضر خدمت ہو رہا ہے۔بہرکیف شادی کے بعد لڑکی اور لڑکے کی باہمی رضامندی ہے جب چاہیں لڑکی اپنے والدین اور لڑکا اپنے سسرال والوں کو ملنے چلے جائیں دوسرے دن جانا یہ رسم ہے اس کو توڑنا چاہیے۔ کیا شادی کے لیے بارات لے جانا ضروری ہے؟ سوال:کیا شادی کے موقع پر دولہا کے ساتھ بارات کا جانا کسی حدیث سے ثابت ہے؟(شیخ آفتاب صاحب،سرگودھا) جواب:شادی بیاہ کے موقعہ پر مروجہ بارات لے جانا شرعا بالکل ثابت نہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔عہد رسالت مآب اور خلفائے راشدین کے ایام ہائے خلافت میں کہیں بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔نکاح کے لیے دولہا،دو گواہ اور لڑکی کے ولی و
Flag Counter