Maktaba Wahhabi

51 - 389
پٹائی کر دیتا۔ابن رجب فرماتے ہیں:"اکثر علمائے حجاز نے اس کا انکار کیا ہے جن میں سے عطاء بن ابی رباح اور ابن ابی ملیکہ ہیں۔عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے فقہائے مدینہ سے یہ بات نقل کی ہے اور اصحاب مالک وغیرہ کا یہی قول ہے۔انہوں نے کہا کہ"ذلك كله بدعة"یہ سارا عمل بدعت ہے۔" مذکورہ توضیح سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین ائمہ حجاز کے ہاں شب برات کا کوئی تصور نہ تھا،اصل میں قدر و برکت والی رات لیلۃ القدر ہے جس میں قرآن حکیم کا نزول ہوا اور شب قدر کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں موجود ہے شعبان کے مہینہ میں 15 ویں رات کی خاص فضیلت کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہوئی،اس کے متعلق جتنی روایات مروی ہیں بعض موضوع و من گھڑت قصے ہیں اور بعض ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں۔ان روایات کی مفصل تحقیق راقم کے قلم سے مجلۃ الدعوۃ میں پہلے چھپ چکی ہے۔ شعبان کی نصف رات کے اعمال کی حیثیت سوال:شعبان کی نصف رات کو بعض لوگ صلاة البراةیاصلاة الالفيه ادا کرتے ہیں،بعض 1000 رکعات نماز اور ہر رکعت میں 10 بار قل ھو اللّٰه پڑھتے ہیں اس طرح ایک ہزار مرتبہ قل ھو اللّٰه پڑھی جاتی ہے کیا ایسا عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ جواب:صلاة البراةیاصلاة الالفيه بدعت ہے اس کا ثبوت کسی بھی صحیح روایت میں موجود نہیں۔علامہ طاہر پٹنی ہندی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ شعبان کی نصف رات کو جو نماز الفیہ ادا کی جاتی ہے یہ بدعات میں سے ہے جس میں سو رکعات میں سے ہر رکعت میں 10 بار قل ھو اللہ پڑھی جاتی ہے اور لوگوں نے عیدوں سے زیادہ اس کا اہتمام کیا ہے۔اس کے متعلق اخبار و آثار و ضعیف یا موضوع ہیں،امام غزالی نے اور احیاء العلوم وغیرہ میں جو اس کا ذکر کیا ہے اس سے دھوکہ نہ کھایا جائے اور نہ ہی تفسیر شعبی سے دھوکہ کھایا جائے کہ شب قدر لیلۃ القدر ہے۔اس نماز کی وجہ سے عوام ایک عظیم
Flag Counter