Maktaba Wahhabi

176 - 389
صرف قاری کے لئے ہے۔ہمارے ہاں یہ جو رواج بن چکا ہے کہ امام جب ایسی آیات تلاوت کرتا ہے تو مقتدی اس کا جواب دیتے ہیں،یہ صحیح نہیں۔اس کے متعلق کوئی صحیح روایت موجود نہیں۔البتہ امام یا قاری کے متعلق کچھ ثبوت ملتا ہے جیسا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ اللیل کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا تو تسبیح کہتے اور جب سوال والی آیت سے گزرتے تو سوال کرتے اور جب تعوذ والی آیت سے گزرتے تو پناہ پکڑتے۔(صحیح مسلم وغیرہ) عبدالرزاق،ابن ابی شیبہ اور بیہقی 2/311 وغیرہا میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا نماز جمعہ میں﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ پر سبحان ربى الاعلى کہنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی عبدالرزاق،ابن ابی شیبہ اور بیہقی میں جواب دینا حالت نماز میں وارد ہے۔لہذا قاری یا امام یہ آیات پڑھتے ہوئے جواب دے تو درست ہے مقتدی یا سامع کے لئے ثبوت موجود نہیں۔ خطبہ جمعہ اور نماز کا الگ الگ امام سوال:اگر خطیب جمعہ کا خطبہ دے اور دوسرا امام نماز پڑھائے تو کیا یہ عمل جائز ہے۔(گلزار احمد سلفی،بھکر) جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا معمول تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطبہ بھی خود ہی دیتے تھے اور نماز بھی خود ہی پڑھاتے تھے لیکن اگر کسی وقت ایک آدمی نے خطبہ دیا اور دوسرے نے جماعت کروا دی تو نماز ادا ہو جائے گی۔نماز نہ ہونے کی کوئی دلیل معلوم نہیں۔ تراویح کے امام کے علاوہ دوسرے امام کا وتر پڑھانا سوال:نماز تراویح میں یہ عمل دیکھنے میں آیا ہے کہ تراویح ایک امام پڑھاتا ہے جبکہ وتر
Flag Counter