Maktaba Wahhabi

323 - 389
استدلال کیا ہے(باب نکاح الرجل ولدہ الصفار باب نمبر 39) یعنی آدمی کا اپنی چھوٹی اولاد کا نکاح کرنا اور اس باب میں سورۃ طلاق کی اس آیت کریمہ کو ذکر کرنے کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے چھ سال کی عمر میں نکاح والی حدیث کو لائے ہیں۔ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم یتیم بچیوں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے تو دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں نکاح کر لو خواہ دو عورتوں سے،خواہ تین سے،خواہ چار سے۔"(النساء:3) اس آیت کریمہ کے مخاطبین وہ لوگ ہیں جن کی زیر ولایت یتیم بچوں کا جان و مال ہے،اس آیت کریمہ سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اگر انصاف و عدل کا یقین ہو تو ان اولیاء کو نابالغہ یتیم بچیوں سے نکاح کر لینا درست ہے لہذا باپ کا اپنی نابالغ بچی کا نکاح کر دینا بدرجہ اولیٰ جائز ٹھہرا۔علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں چھوٹی یتیم بچی کے نکاح کے جواز کی دلیل ہے اور لڑکی بلوغت کے بعد اگر اس نکاح کو قائم نہ رکھنا چاہے تو اسے فسخ نکاح کا حق حاصل ہے۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس نے بیان دیا کہ اس کے باپ نے اس کی شادی کر دی ہے اور وہ ناپسند کرتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا(ابوداؤد،احمد،ابن ماجہ)پس معلوم ہوا کہ نابالغ لڑکی کو بعد از بلوغت فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے۔مزید تفصیل کے لئے دیکھیں فتاویٰ محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ۔ بالغ لڑکی کا نکاح سوال:بعض اوقات والدین لڑکی کی شادی اس کی تعلیم کی غرض سے لیٹ در لیٹ کر دیتے ہیں جبکہ لڑکے کی طرف سے شادی کا مطالبہ بھی ہوتا ہے یا ابھی لڑکی کا رشتہ طے نہیں ہوا لیکن والدین اس کے بالغ ہونے کے بعد صرف دنیاوی تعلیم کی غرض سے
Flag Counter