Maktaba Wahhabi

311 - 389
جاتا ہے۔اس کی کوئی دلیل نہیں۔بارات کے بارے میں راقم نے غزوہ میں پہلے بحث کر دی ہے کہ موجودہ تصور بارات اسلام کا نہیں ہے اور خیر القرون میں اس کی کوئی مثال ہمیں نہیں ملتی۔شادی کے موقع پر جو دعوت ہوتی ہے وہ ولیمہ ہی ہے۔جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے موقع پر بھی ہوا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی آپ نے ولیمہ کرنے کے لئے کہا۔ لہذا شادی پر یہی دعوت ہونی چاہیے خواہ شادی ہال میں ہو یا کسی حویلی اور گھر میں،یہی شرعا ثابت ہے۔ وٹہ سٹہ کی شادی سوال:اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی کا کیا تصور ہے اگر طرفین سے عام حالات میں رضا مندی کے ساتھ وٹہ سٹہ کی شادی ہو جائے تو پھر بھی یہ سلسلہ شریعت کی گرفت میں ہے؟(کارکنان جماعت الدعوۃ موضع جوڑا ضلع قصور) جواب:وٹہ سٹہ کی شادی کو شریعت میں شغار کہا جاتا ہے،شغار کی ممانعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:﴿لا شغار فى الإسلام ﴾اسلام میں شغار نہیں ہے۔ (صحیح مسلم:کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار و بطلانہ 1415) شغار کی ممانعت والی حدیث ابوہریرہ،انس بن مالک،عمران بن حصین،جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے کتب احادیث میں مروی ہے اور شغار کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن یا اپنی زیر ولایت کسی بھی لڑکی کی شادی اس شرط پر کرے کہ دوسرا آدمی اپنی بیٹی یا بہن یا اپنی زیر ولایت لڑکی کا نکاح اس کے کسی فرد سے کر دے اور یہ شرط شرعی طور پر درست نہیں کیونکہ نکاح کے بارے میں شریعت میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ﴿كل شرط ليس فى كتاب اللّٰه فهو باطل ﴾ ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے۔(صحیح البخاری:کتاب
Flag Counter