Maktaba Wahhabi

289 - 389
الحديثين على هذين الحالين،وإذا حضر الكافر بالإذن رضخ له من الغنائم ولا يسهم له هذا مذهب مالك والشافعى وابى الحنيفه والجمهور)(شرح صحیح مسلم للنووی 12/177ط دارالکتب العلمیہ بیروت) امام شافعی اور دیگر فقہاء محدثین نے کہا ہے کہ اگر کافر مسلمانوں کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہوں اور ان کی مدد کی حاجت ہو تو ان سے مدد لی جائے گی وگرنہ مکروہ ہو گی اور دونوں قسم کی احادیث کو ان حالتوں پر محمول کیا ہے اور جب کافر اجازت کے ساتھ میدان جنگ میں حاضر ہو تو اسے غنیمت کے مال سے کچھ عطیہ دیا جائے گا،باقاعدہ اس کا حصہ نہیں نکالا جائے گا۔یہ مذہب امام مالک،امام شافعی،امام ابوحنیفہ اور جمہور محدثین کا ہے۔ کافروں کی گردنیں کاٹنا سوال:پچھلے دنوں دلجوت کی کارروائی میں کافر مسلمانوں کی گردنیں کاٹ کر ساتھ لے گئے اس کے جواب میں ہمارے ساتھیوں نے بھی انڈین آرمی کی گردنیں کاٹیں،پاکستان آرمی کے کرنل نے کہا:یہ مسئلہ ہے اور شرعی طور پر ٹھیک نہیں ہے،آپ اس کو شرعی طور پر ثابت کریں ورنہ جرمانہ ہو گا۔(ابو عادل) جواب:کفار کے ساتھ میدان قتال میں سختی کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ﴾(الانفال:۱۲) "پس تم ان کفار کی گردنوں پر مارو اور ان کے جوڑ جوڑ پر مارو۔" اس آیت کریمہ میں مجاہدین کو شجاعت اور پامردی سے لڑنے کا کہا جا رہا ہے اور حکم دیا جا رہا ہے کہ میدان کارزار میں جب کفار کا سامنا ہو تو ان کی گردنوں پر مارو اور ان کے ہاتھوں اور پاؤں کے جوڑ جوڑ پر مارو تاکہ وہ لڑنے کے قابل نہ رہیں۔معلوم ہوا کہ کفار کی گردنیں کاٹنا بالکل درست اور جائز ہے اور کتب احادیث و تواریخ
Flag Counter