Maktaba Wahhabi

160 - 362
اس حدیث میں جن حوادثات کا بیان ہواہے، یہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ پس بیت المقدس کی آبادی، یعنی یہاں پر آبادی کا کثرت سے پھیل جانا اور کثرت کے ساتھ عمارتیں تعمیر ہونے کی وجہ سے شہر کا حدود اربعہ بڑھ جاناا ور لوگوں کایہاں پر رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دینایہ بیت المقدس کی آبادی ہے۔ اس کے بعد مدینہ طیبہ کی تخریب ہوگی۔ لوگ یہاں پر رہائش اختیار کرنے سے بے رغبتی برتیں گے۔اوریہاں پر مزید عمارتیں بننے کا سلسلہ ختم ہوجائے گا اور آج کل حقیقت میں لوگ مدینہ منورہ میں کم ہوتے جارہے ہیں بڑھ نہیں رہے۔اور بہت سارے لوگ مدینہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں ۔ حدیث شریف میں آتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم لوگ مدینہ کو اچھے حال میں چھوڑو گے یہاں تک کہ وہاں پرکتے اور بھیڑیے داخل ہوں گے، اور مسجد کے کسی ستون پر پیشاب کردیں گے۔یا فرمایا کہ منبر پر پیشاب کریں گے۔ تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ایسے زمانہ میں پھل کن کے لیے ہوگا؟ فرمایا: پھرنے والے پرندوں اور درندوں کے لیے۔‘‘( موطا امام مالک) بیت المقدس کی آباد کاری سے یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ آخری زمانے میں خلافت اس علاقے میں قائم ہوگی۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن حوالہ کی روایت میں ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پاپیادہ ایک غزوہ کے لیے روانہ فرمایا ؛تاکہ ہم مال غنیمت حاصل کریں ۔ آخر کار ہم اس حال میں واپس ہوئے کہ مال غنیمت میں سے ہمیں کچھ بھی ہاتھ
Flag Counter