Maktaba Wahhabi

93 - 645
[جواب ]:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے : پہلی وجہ:....شیعہ مصنف کا یہ خیال اس امر پر مبنی ہے کہ آیا اطاعت اللہ تعالیٰ امر کے مطابق ہے یا ارادہ کے؟ نیز یہ کہ کیا امر ارادہ کو مستلزم ہے یا نہیں ؟اس میں بحث بہت مشہور ہے۔ اس قدری نے اپنے قول کی صحت ذکر نہیں کی؛ اور نہ اپنے مخالفین کے قول کا فساد بیان کیا ہے۔ بلکہ اس نے صرف دعویٰ کر دیا ہے جو اس بات پر مبنی ہے کہ طاعت ارادہ کے موافق ہوتی ہے۔ سو جب اس کے مخالفین نے اسے یہ کہا کہ ہم تمہارے اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتے تو قدری کے پاس دلیل نہ ہونے کی وجہ سے منازعین کی اتنی ہی بات اس کے دعویٰ کے رد کے لیے کافی ٹھہری۔ دوسری وجہ :....ان کا استدلال اس بات سے ہے کہ امر ارادہ کو مستلزم نہیں کیونکہ اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے ۔ہم قبل ازیں یہ حقیقت واضح کر چکے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ بندوں کے افعال کو اپنے ارادہ سے پیدا کرتا ہے ۔ اس نے کفر و عصیان اور فسق کا حکم نہیں دیا۔ تو معلوم ہوا کہ بعض اوقات وہ ایسی چیز کو پیدا کرتا ہے، جس کا وہ حکم نہیں دیتا،یہ بات کتاب و سنت اور علماء کے اجماع سے ثابت ہے۔ اگر کوئی شخص حلف اٹھا کر یہ کہے کہ کل وہ اس کا حق ادا کر دے گا، ان شاء اﷲ۔ کل کا روز گزر جائے اور وہ قدرت کے باوجود اس کی تعمیل سے قاصر رہے تو وہ حانث نہیں ہوگا۔اور اگر ان شاء اﷲ کے الفاظ میں مشیت کا لفظ امر کے معنی میں ہوتا تو وہ حانث ٹھہرتا، کیونکہ وہ اس کا مامور ہوتا۔ علی ہذا القیاس جب کسی فعل مامور پر حلف اٹھا کر اسے مشیت باری تعالیٰ سے معلق کر دیا جائے تو قسم اٹھانے والا اس میں حانث نہیں ہوتا۔اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَلَوْ شَائَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعًا﴾ (یونس:۹۹) ’’اور اگر اﷲ تعالیٰ چاہتا تو کرۂ ارضی پر بسنے والے سب ایمان لے آتے۔‘‘ حالانکہ اس نے بندوں کو ایمان لانے کا حکم بھی کیا ہے۔ سو معلوم ہوا کہ اس نے بندوں کو ایمان لانے کاحکم تو دیا ہے لیکن اس کو چاہا نہیں ۔ [ اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ امر اور مشیت میں فرق ہے]۔دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ﴿ وَمَنْ یُّرِد ْ اَنْ یَّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا﴾ (الانعام:۱۲۵) ’’اور جس کو گمراہ کرنا چاہتا ہے، اس کے سینہ کو تنگ کر دیتا ہے۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، مگر گمراہ ہونے کا حکم نہیں دیتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’رب تعالیٰ کو تمہارے لیے تین باتیں ناپسند ہیں : (۱) قیل و قال (۲) کثرت سوال (۳) اور اضاعتِ مال۔‘‘ [1] امت اس بات پر متفق ہے کہ رب تعالیٰ منہیات کو ناپسند فرماتا ہے، تاکہ مامورات کو، اور یہ کہ وہ مقتضین، محسنین اور صابرین کو محبوب رکھتا ہے۔ وہ توابین اور متطہرین سے محبت کرتا ہے۔ مومنوں اور نیک اعمال والوں سے راضی ہے اور یہ کہ وہ کافرین سے غصہ ہے اور ان پر غضب ناک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
Flag Counter