Maktaba Wahhabi

84 - 645
دوسرا جواب :....اس تقسیم کی بابت یہ ہے کہ یہ تقسیم حصری نہیں ۔ کیونکہ قائل کا یہ قول کہ: ’’اَلْمَعْصِیَۃُ مِمَّنْ ‘‘ایک مجمل و مبہم لفظ ہے جو محتاج تشریح ہے۔ ظاہر ہے کہ معصیت ہویا طاعت و عبادت؛وہ ایک عرض (وہ چیز جو اپنے وجود میں کسی دوسری چیز کی محتاج ہو) ہے جو قائم بالغیر ہے؛ اورضروری طورپر اپنے قیام میں کسی محل کی محتاج ہے؛ اور لا محالہ یہ بات بھی پوشیدہ نہیں کہ اس کا قیام بندے کے ساتھ ہے، اﷲ کے ساتھ نہیں ، اور جو چیز بھی اﷲ کی پیدا کردہ ہے اس کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ وہ اﷲ کی طرف سے ہے، بایں معنی کہ وہ اس کی پیدا کردہ ہے، مگر یہ الگ چیزہے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ اﷲ کے ساتھ قائم ہے اور اﷲ تعالیٰ اس سے موصوف ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ﴾ (الجاثیۃ: ۱۳) ’’اور ا س نے تمھاری خاطر جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنی طرف سے مسخر کر دیا۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿ وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ﴾ (النحل:۵۳) ’’ تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اﷲ کی طرف سے ہے۔‘‘ اب اگرچہ رب تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، اسی نے خیر و شر کو پیدا کیا ہے اور اس میں اس اعتبار سے حکمت ہے کہ اس کا فعل حسن اور متفق ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿الَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ وَ بَدَ اَخَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍo﴾ (السجدۃ: ۷) ’’جس نے اچھا بنایا ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی اور انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْئٍ﴾ (النمل: ۸۸) ’’اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔‘‘ اس لیے نرے شر کی اللہ کی طرف نسبت نہ کی جائے گی بلکہ یا تو اسے عموم میں داخل کر کے ذکر کریں گے یا سبب کی طرف مضاف کریں گے یا اس کے فاعل کو محذوف کر کے ذکر کریں گے۔ پہلی کی مثال: ارشاد ربانی ہے: ﴿اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الزمر: ۶۲) ’’اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔‘‘ دوسری کی مثال: ﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الفلقo مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَo﴾ (الفلق: ۱۔۲) ’’تو کہہ میں مخلوق کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں ۔ اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔‘‘ تیسری کی مثال وہ ہے جو جن کی حکایت کے تحت ہے۔ ارشاد ہے:
Flag Counter