Maktaba Wahhabi

83 - 645
امام صاحب نے جس تفصیل کے ساتھ قدریہ کا رد کیا ہے، کسی اور کا نہیں کیا اور امام صاحب کے متبعین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ہی امام صاحب کا مذہب ہے اور یہی حنفیہ کا بھی مذہب ہے۔ اب فروع میں امام صاحب کی طرف کوئی شخص معتزلہ کے بارے میں امام صاحب کی بابت ایسی کوئی حکایت نقل نہیں کر سکتا۔ بلکہ یہ معتزلہ اور قدریہ آئمہ احناف کے نزدیک ان کا قول مفتی بہ ہوتا ہے۔ مذموم، معیوب، بدعتی اور اہل زیغ و ضلال ہیں ۔ لہٰذا امام صاحب اس شخص کی تائید نہیں کر سکتے، جو یہ کہتا ہو کہ اﷲ تعالیٰ نے بندوں کے افعال کو پیدا نہیں کیا۔ مزید برآں امام موسیٰ بن جعفر متقدمین شیعہ اور دیگر علماء اہل بیت تقدیر کے قائل تھے۔انکار تقدیر شیعہ میں اس وقت رائج ہوا جب وہ بنوبویہ[1]کے دور حکومت میں معتزلہ سے مل جل گئے، اس عقیدہ کا ان سے منقول ہونا ظاہر اور معروف ہے۔ جبکہ خود قدماء شیعہ قدر و صفات کے اثبات پر متفق تھے۔ بعد میں ان لوگوں میں قدریہ آ ملے تھے۔ شیعہ مصنف نے امام موسیٰ بن جعفر سے جو قول نقل کیا ہے اس کے بیان کرنے والے زیادہ تر منکرین تقدیر کے کم سن لوگ اور بچے ہیں ، یہ نظریہ قدریہ کے آغاز ظہور اور امام موسیٰ کی ولادت سے بھی پہلے لوگوں میں معروف تھا،کیونکہ موسیٰ بن جعفر مدینہ میں ۱۲۸ھ یا ۱۲۹ھ میں دولت عباسیہ سے تقریباً تین برس پہلے پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے بغداد میں ۱۸۳ھ میں وفات پائی تھی۔ ابو حاتم کہتے ہیں : موسیٰ بن جعفر ثقہ، صدوق اور ائمہ مسلمین میں سے ہیں اور قدریہ اس تاریخ سے قبل پیدا ہوئے ہیں ۔یہ امر محتاج بیان نہیں کہ قدریہ نے اموی دور میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور عبدالملک بن مروان رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں پرپرزے نکالنے شروع کیئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکایت سراپا کذب ہے۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جن سے ملے تھے وہ جعفر بن محمد رحمہ اللہ ہیں ۔ رہے موسیٰ بن جعفر رحمہ اللہ تو وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے کہ جن سے امام ابو حنیفہ سوال پوچھتے۔ اور نہ ان کے ساتھ کہیں جمع ہوئے۔ امام صاحب کے اقران و معاصرین میں سے تو جعفر بن محمد رحمہ اللہ تھے اور ابو حنیفہ بایں علمی شہرت کے ان سے علم لینے والے نہ تھے تب پھر بھلا وہ موسیٰ بن جعفر سے کیونکر علم حاصل کرتے؟ پھر رافضی نے اس حکایت میں جو یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’اللہ اس بات سے کہیں زیادہ عدل والا ہے کہ وہ اپنے بندے پر ظلم کرے اور اس کے نا کردہ پر اس کا مؤاخذہ کرے۔‘‘ کہ یہ قدریہ کے کلام کی اصل و اساس ہے جسے عوام و خواص سب جانتے ہیں ۔ یہ ان کے مذہب کی اساس اور ان کا شعار ہے۔ اسی لیے یہ لوگ خود کو ’’عدلیہ‘‘ بھی کہلاتے ہیں ۔ لہٰذا اگر تو اس حکایت کی موسیٰ بن جعفر کی طرف نسبت درست ہے تو اس میں ان کی نہ کوئی فضیلت ہے اور نہ تعریف و مدح۔ جبکہ قدریہ کے بچے بھی اس کو جانتے ہیں ۔ پھر اس وقت حال ہو گا جب یہ حکایت جھوٹی اور اختلافی ہو؟
Flag Counter