Maktaba Wahhabi

622 - 645
فرمایا:’’اے اہل عراق! تم مکھی کے قتل کا مسئلہ دریافت کرتے ہو؛حالانکہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے بیٹے (حسین رضی اللہ عنہ )کو قتل کر دیا؛ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :’’ یہ دونوں میری دنیا کے دو پھول ہیں ۔‘‘[1] ایک مجہول سند کے ساتھ یہ بھی روایت کیا گیا ہے یہ واقعہ یزید کے سامنے پیش آیا۔اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر یزید کے پاس لے جایا گیا تھا۔ اور اس نے چھڑی سے آپ کے دانتوں پر مارا تھا۔باوجود اس کے کہ یہ واقعہ ثابت نہیں ہے ؛ پھر بھی روایت میں اس کے جھوٹے ہونے کی گواہی موجود ہے۔ اس لیے کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چھڑی مارنے کے وقت موجود تھے وہ عراق میں تھے ‘شام میں نہیں تھے۔اور کئی لوگوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اور نہ ہی وہ آپ کو قتل کروانا چاہتا تھا۔ بلکہ وہ آپ کو عزت و اکرام سے رکھنا چاہتا تھا جیسا کہ اس کے والد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسے وصیت فرمائی تھی۔مگر اس کی چاہت یہ بھی تھی کہ آپ کو خروج سے روکا جائے ‘ اور آپ کو عراق میں حکومت قائم نہ کرنے دی جائے۔ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ عراق پہنچے تو انہیں معلوم ہوگیا کہ اہل عراق انہیں رسوا کریں گے‘ اور انہیں گرفتار کرلیں گے؛ تو آپ نے تین مطالبات کیے : ۱۔ مجھے یزید کے پاس جانے دیا جائے ۔ ۲۔ یا پھر مجھے اپنے وطن واپس جانے دیا جائے۔ ۳۔ یا کسی محاذ جنگ پر جانے دیا جائے ۔ مگر انہوں نے گرفتار کرنے کے علاوہ کسی بات پر رضامندی ظاہر نہ کی ۔ اورآپ سے جنگ کی یہاں تک کہ آپ مظلومیت کی حالت میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اورجب آپ کے قتل کی خبر یزیداور اہل کے اہل خانہ تک پہنچی تو ان پر بہت گراں گزری ۔ اور آپ کے قتل پر رونے لگے۔ یزید نے کہا: اللہ تعالیٰ ابن مرجانہ ۔ یعنی عبیداللہ بن زیاد ۔ پر لعنت کرے ؛ اللہ کی قسم ! اگر اس کے اور حسین کے مابین کوئی رحم کا تعلق ہوتا تو وہ آپ کو قتل نہ کرتا ۔‘‘ اور کہا : میں قتل حسین رضی اللہ عنہ کے بغیر اہل عراق کی اطاعت پر راضی تھا۔‘‘اور پھر اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو بہترین انداز میں تیار کرکے مدینہ روانہ کیا ۔مگر اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ نہیں لیا ‘ اور نہ ہی آپ کے قاتل کو قتل کیا۔ باقی رہا یہ قصہ جو آپ کے اہل خانہ خواتین اور بچوں کو قیدی بنانے اوربغیر پالان کے اونٹوں پربیٹھا کر شہروں میں گھمانے کے بارے میں نقل کیا گیا ؛ یہ سراسر جھوٹ اور باطل ہے ۔ مسلمانوں نے کبھی بھی کسی ہاشمیہ کو قیدی نہیں بنایا ۔ وللہ الحمد ۔ او رنہ ہی کبھی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ہاشمیہ کو قیدی بنانے کو حلال سمجھا ہے۔ مگر اہل ہواء اور جاہل لوگ بہت زیادہ جھوٹ بولتے ہیں ۔جیسا کہ ان میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ : حجاج بن یوسف نے بنی ہاشم کی ایک جماعت کو قتل کیا تھا۔‘‘
Flag Counter