Maktaba Wahhabi

589 - 645
باطل ہوگئے اور جو کچھ نافرمانی کے کام کرتا ہے ‘ ان میں اس کا کوئی مماثل و مقابل نہیں ۔ توپھر یہ کہنا غلط ہوا کہ فلاں انسان ابلیس سے بڑھ کر برا ہے ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہوسکتی ہے جیسے کو ئی انسان مرتد ہوجائے ‘ پھر زنا کرے ‘ لوگوں کو قتل کرے ‘ اور اپنی سابقہ اطاعت گزاری کے بعد انواع و اقسام کے گناہ کرے۔ پس جو شخص اس کے بعد آئے؛ وہ ان ضائع شدہ اطاعات میں اس کے مقام کو نہ پہنچ سکے ؛ مگر وہ کچھ محدود گناہوں میں اس کے ساتھ شریک رہے ؛ تو ان کی وجہ سے وہ اس سے برا نہیں ہوجائے گا۔ توپھر کوئی ابلیس سے بڑھ کر برا کیوں ہوسکتا ہے؟ ۔ اس سے خود شیعہ کے اصولوں پر کاری ضرب لگتی ہے ۔ خواہ وہ حق ہوں یا باطل۔ اس سے سب سے کم یہ چیز لازم آتی ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وہ ساتھی جو آپ سے مل کر بر سر پیکار رہتے تھے ‘ وہ کبھی کبھار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نافرمانی بھی کیا کرتے تھے؛ وہ ان لوگوں سے برے ہوئے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی بیعت کرنے سے رک گئے تھے۔اس لیے کہ ان لوگوں نے اصحاب علی رضی اللہ عنہ سے پہلے اللہ کی بندگی کی ؛ جب کہ یہ لوگ میدان معصیت میں ساتھ چلتے رہے ۔ تیسری بات:....کون کہتا ہے کہ ابلیس فرشتوں سے زیادہ عبادت گزار تھا؟ [اس کی کیا دلیل ہے کہ] اس نے تنہا عرش کو چھ ہزار سال تک اٹھائے رکھا؟یا پھر اس کا شمار عرش اٹھانے والوں میں ہوتا تھا؟ یایہ کہ وہ ’’ طاؤس الملائکہ‘‘(فرشتوں کا مور) تھا؟ اور اس نے زمین و آسمان پر کوئی جگہ نہیں چھوڑی جہاں سجدہ نہ کیا ہواو رایک رکعت ادا نہ کی ہو؟ یا اس طرح کی دیگر باتیں جو عوام الناس میں مشہور کی گئی ہیں ؛ظاہر ہے کہ اس کی اساس نقل صادق پر ہونی چاہیے۔ حالانکہ یہ کسی آیت میں یا صحیح حدیث میں مذکور نہیں ۔تو پھر کیا اس سے کوئی انسان استدلال کرسکتا ہے سوائے اس کے جو اصول دین میں سب سے بڑا جاہل ہو۔ [شبہ] : بڑی عجیب بات تو یہ ہے کہ : ’’ رافضی مصنف کہتا ہے:’’ علماء کے مابین اس بابت کو ئی شک نہیں کہ ابلیس ملائکہ سے زیادہ عبادت گزار تھا۔‘‘ [جواب]: ہم پوچھتے ہیں کہ : ’’ یہ بات کس نے کہی ؟ صحابہ کرام تابعین عظام میں سے کسی نے یا دیگر علماء کرام نے ؟ ۔ تو پھر چہ جائے کہ یہ دعوی کیا جائے کہ علماء کرام کے مابین متفق علیہ ہے ۔ یہ بات ہر گز کسی ایسے مسلمان عالم نے نہیں کہی جس کی بات قابل قبول ہو۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں صرف منقول پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ یہ حکایت کسی طرح بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل نہیں کی گئی ؛ نہ ہی کسی صحیح سند سے اور نہ ہی کسی ضعیف سند سے ۔ شیعہ مصنف کی افتراء پردازی کا یہ عالم ہے کہ اس جھوٹ کو علماء کے ہاں مسلم قرار دیتا ہے، اگر یہ بات کسی وعظ گو ملا نے کہی ہو یا ترغیب و ترہیب[1] کی کسی کتاب میں درج ہو۔ یا کسی ایسی بے اصل تفسیر میں منقول ہو جو اسرائیلیات سے لبریز ہو تو بھی اس سے
Flag Counter