Maktaba Wahhabi

582 - 645
تو اس حدیث کی رو سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کافر ٹھہرے ۔تمہاری[شیعہ کی ] دلیل نواصب کی دلیل سے زیادہ قوی نہ ہوگی۔ اس لیے کہ نواصب نے جن احادیث سے استدلال کیا ہے ‘ وہ صحیح روایات ہیں ۔ ایسے ہی نواصب [روافض سے ] یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ : کسی نفس کو قتل کرنا زمین میں فساد پھیلانا ہے۔ اور جو کوئی اپنی اطاعت منوانے کے لیے لوگوں کو قتل کرے وہ بلند مرتبہ کی تلاش میں زمین میں فساد پھیلانے والا ہے ۔ یہی حال فرعون کا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ (القصص۸۳) ’’ یہ آخرت کا گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔‘‘ جوکوئی زمین میں فساد و سرکشی پھیلائے وہ آخرت میں اہل سعادت میں سے نہیں ہوسکتا۔یا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مانعین زکوٰۃ اور مرتدین سے قتال کی طرح نہیں ہوسکتا۔اس لیے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر قتل کیا تھا؛ نہ کہ اپنی اطاعت پر۔ اس لیے کہ زکوٰۃ ان پر فرض تھی۔تو آپ نے ان سے اس کا اقرار کروانے اور ادا کروانے کے لیے قتال کیا۔بخلاف اس کے جو صرف اس وجہ سے قتال کرے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ اسی لیے امام ابو حنیفہ ‘ امام احمد اور دوسرے علماء کرام رحمہم اللہ نے فرمایا ہے : ’’ جو انسان یہ کہے کہ :’’ میں زکوٰۃ ادا کرتا ہوں ‘ مگر حاکم وقت کو نہیں دوں گا[بلکہ خود اپنے ہاتھ سے کسی کو دوں گا] تو امام کے لیے اس کے خلاف جنگ کرنا جائز نہیں۔[1]
Flag Counter