Maktaba Wahhabi

557 - 645
بیعت کر لیں ؛ تو ہم آپ کی ولایت میں مظلوم ہی ہوں گے؛ اور اس پر مستزاد اس سے پہلے جو ظلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ہو چکا ہے؛ انہوں نے تو اپنی عاجزی اور مجبوری کی وجہ سے ہمیں اس سلسلہ میں انصاف نہیں دلایا۔ بھلے یہ آپ کی تأویل کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ یا پھر اس وجہ سے ہو جو کچھ دوسرے لوگ آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ آپ ان سے دفاع کرنے میں عاجز تھے۔ اور بلاشک و شبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین اور ان کے حلیف ہمارے دشمن ہیں ۔ اور ان کی بڑی تعداد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھی۔ اور آپ ان سے دفاع کرنے میں عاجز تھے۔ اس کی دلیل یوم جمل کا واقعہ ہے۔ بیشک جب آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے انتقام لینے کے لیے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر سے مدد چاہی تو وہ لوگ ان کے خلاف جمع ہوکر بر سر پیکار جنگ ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں پر ہاتھ اٹھانے سے باز رہنا مصلحت کا تقاضا تھا۔ جیسا کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے مشورہ کے بعد اس پر اتفاق ہوگیا تھا۔مگر جب قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو اکابرین کے اس اتفاق کا علم ہوا تو انہیں نے فتنہ و فساد پھیلادیا۔ اور انہوں نے پہل کرکے حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے لشکر پر حملہ کر دیا۔اورحضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے:’’ حملہ کرنے میں پہلے انہوں نے کی ہے ۔‘‘پس ان میں سے ہر دو فریق اپنے اپنے دفاع میں لڑتے رہے ۔ اس جنگ سے حضرت علی یا حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کو کوئی سر وکار نہیں تھا۔ بلکہ یہ فتنہ و فساد قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا پیدا کردہ تھا۔[پس اس پر وہ کہتے تھے:] ’’جب وہ ہمارے ساتھ ہماری نصرت کے بارے میں اپنی عاجزی یا تاویل کی وجہ سے انصاف نہیں کرسکتے؛ تو ہم پر بھی یہ لازم نہیں ہوتا کہ ہم اس انسان کی بیعت کریں جس کے دور میں ہم ظلم کی شکایت کرتے ہیں ‘ جو لوگ ہم سے جنگ کرنے کو جائز کہتے ہیں ؛ ان کا کہنا ہے : ’’ ہم باغی ہیں ۔‘‘ اور بغاوت کرنا ظلم ہے ۔ اگر صرف ظلم کی وجہ سے قتال حلال ہوجاتاہے ‘ تو یہی ظلم بیعت ترک کرنے کے جواز میں زیادہ اولی اور مناسب ہے ۔ اس لیے کہ جنگ کرنے میں بغیر جنگ کے بیعت ترک کر دینے سے بڑھ کر فساد ہے ۔‘‘ ٭ اگرشیعہ کی طرف سے یہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر ظلم نہیں کرنا چاہتے تھے ‘ بلکہ آپ عدل قائم کرنے میں مجتہد تھے ‘وہ ان کے ساتھ بھی عدل کرنا چاہتے تھے اور ان پر عدل قائم کرنا چاہتے تھے۔ ٭ تواسکے جواب میں [اصحاب معاویہ کی طرف سے] کہا جاسکتا ہے کہ :’’ ہم بھی عمداً بغاوت نہیں کرنا چاہتے ؛ بلکہ ہم ان کیساتھ اور اپنے ساتھ عدل کرنا چاہتے ہیں ۔اور اگر مان لیا جائے کہ ہم تاویل کی بنا پر باغی بھی ہیں ‘ تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ جنگ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا؛اور فقط کسی کی بغاوت سے اسے قتل کرنا حلال نہیں ہوجاتا ۔ بلکہ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا﴾ [الحجرات۹] ’’اور اگر ایمان والوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو۔‘‘
Flag Counter