Maktaba Wahhabi

548 - 645
مذکورہ بالا حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کرانے کی بنا پر حضرت حسن کی مدح فرمائی اور دونوں جماعتوں کو مومن قرار دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قابل ستائش فعل صلح کرانا ہے نہ کہ جنگ آزما ہونا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عنقریب ایک ایسا فتنہ ہو گا جس میں بیٹھنے والا کھڑا ہونے والے سے بہتر ہو گا ، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا ۔اور جو آدمی گردن اٹھا کر انہیں دیکھے گا تو وہ اسے ہلاک کردیں گے اور جسے ان میں کوئی پناہ کی جگہ مل جائے تو چاہئے کہ وہ پناہ لے لے ۔‘‘[1] آپ نے مزید فرمایا: ’’ عنقریب مومن کا سب سے بہتر مال بکریاں ہوگا، جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور بارش والی جگہوں پر چلا جائے گا اور اس طرح اپنے دین کو فتنوں کی زد سے بچا لے گا۔‘‘[2] اور ایک صحیح روایت میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ؛ فرمایا: ’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ فتنے تمہارے گھروں میں ایسے واقع ہو رہے ہیں جیسے بارش کے قطرے ۔‘‘[3] جن صحابہ نے فتنہ سے احتراز و اجتناب کی حدیث روایت کی ہے ان میں سعد بن ابی وقاص[4] و محمد بن مسلمہ [5]اور اسامہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں ؛ انھوں نے جنگ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ و معاویہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی کا بھی ساتھ نہیں دیا تھا۔ ’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے:’’ جو شخص بھی فتنہ کی لپیٹ میں آجائے مجھے اس کے جادہ مستقیم سے بھٹک جانے کا خطرہ دامن گیر رہتا ہے، مگر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے مستثنیٰ ہیں ۔میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ ’’فتنہ و فساد سے محمد بن مسلمہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[6] حضرت ثعلبہ بن ضبیعہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ:’’ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا:’’ مجھے وہ شخص معلوم ہے جسے فتنہ پر دازی سے کوئی نقصان اور ضرر لاحق نہیں ہوتا، چنانچہ ہم باہر نکلے تو ایک خیمہ نصب کیا ہوا دیکھا جس میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تشریف فرماتھے۔ہم نے اس ضمن میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا میں نہیں چاہتا کہ بلاد و امصار جس فتنہ سے دو چار ہیں میں بھی اس کی لپیٹ میں آجاؤں یہاں تک کہ فتنہ کی آگ فرو ہوجائے۔‘‘[7]
Flag Counter