Maktaba Wahhabi

481 - 645
ہوسکتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کافر تھا ۔ نبی کا بیٹا کافر ہو [شیعہ مذہب کے مطابق] ایسا نہیں ہوسکتا ؛[ اسی لیے وہ اسے آپ کا بیٹا ہی نہیں مانتے ]۔ ایسے ہی شیعہ کہتے ہیں : جناب ابو طالب مؤمن تھا۔ان میں سے بعض کہتے ہیں : اس کا نام عمران تھا۔جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے : ﴿اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ ابرہیم وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ﴾ [آل عمران۳۳] ’’بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کے لوگوں میں سے آدم علیہ السلام کو اور نوح علیہ السلام کو، ابراہیم علیہ السلام کے خاندان اور عمران کے خاندان کو منتخب فرمایا ۔‘‘ [اپنے مطلب کی بات نکالنے کے لیے ] ان لوگوں کی یہ کارستانیاں ہیں ؛ حالانکہ اس میں جو جھوٹ ‘ افتراء ؛ بہتان اور حصول مقصود میں جو تناقض ہے ‘ وہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے؛ جو کسی پر مخفی نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی انسان کے باپ یا بیٹے کے کافر ہونے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس انسان میں کوئی نقص یا کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ اللہ کی مشیت ہے وہ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالتاہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے والدین سے افضل تھے۔ ان کے باپ دادا کافرتھے۔ بخلاف اس کے کہ کوئی کسی فاحشہ کا شوہر ہو۔ اس لیے کہ یہ کسی انسان کی مذمت اور عیب جو ئی کے لیے سب سے بڑا طعنہ ہے۔ اس کی مضرت انسان کو لاحق ہوتی ہے ؛ اس کے برعکس باپ یا بیٹے کے کافر ہونے سے کوئی ایسا فرق نہیں پڑتا ۔ مزید برآں اگر ایسے ہی ہوتا کہ مؤمن والدین سے ہمیشہ مؤمن اولاد ہی پیدا ہوگی؛ تو پھر اس کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تمام اولاد اہل ایمان ہوتی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : ﴿وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ [المائدۃ ۲۷] ’’آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دوان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذر قبول ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی توکہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا؛ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ تقوی والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔‘‘یہ مکمل قصہ ہے ۔ صحیحین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کوئی بھی انسان ظلم کی وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا مگر ابن آدم پر اس کے خون کے برابر گناہ ہوگا؛ اس لیے کہ اس نے سب سے پہلے قتل کرنے کی رسم کی طرح ڈالی۔‘‘[1]
Flag Counter